بدھ 21؍رمضان المبارک 1444ھ12؍اپریل 2023ء

پاکستانی فری لانسرز کو رقوم کی ترسیل میں شدید مسائل، بین الاقوامی پروجیکٹس میں کمی

  کراچی: پاکستان کی دگرگوں معاشی صورتحال، بینکوں کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی، حکومتی پالیسیوں اور دیگر رکاوٹ سے پاکستان کے قابل فری لانسرز شدید مشکلات کے شکار ہیں۔ یہاں تک کہ کئی بین الاقوامی پروجیکٹ خطرے میں پڑنے سے فری لانسر نوکریوں کے متلاشی ہیں۔

پاکستانی معیشت پر عالمی اعتبار میں کمی اور شرح مبادلہ کی بے یقینی کیفیت نے پاکستانی آئی ٹی فری لانسرز کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ انٹرنیشنل پیمنٹ پلیٹ فارمز نے پاکستان کے لیے ڈپازٹ کے لیے ٹرانزیکشن محدود کر دیے ہیں۔ اس طرح رقم پاکستان لانا سخت مشکل ہوچکا ہے۔

بلاشبہ پاکستان کے 30لاکھ آئی ٹی فری لانسرز نے گلوبل آئی ٹی مارکیٹ میں اپنی صلاحیتوں سے پاکستان کے لیے بہت کم عرصہ میں مقام حاصل کیا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کی چوتھی فری لانسنگ مارکیٹ میں کیا جاتا ہے جس نے سال 2022میں 40کروڑ ڈالر کی ڈیجیٹل سروسز ایکسپورٹ کرکے پاکستان کے لیے زرمبادلہ حاصل کیا، تاہم عالمی ڈیجٹیل منظرنامہ پر پاکستان کو نمایاں کرنے والے فری لانسرز اپنی ہی رقوم پاکستان لانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ملک پر ڈیفالٹ کے خطرے اور منٹوں میں تبدیل ہونے والی شرح مبادلہ کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز کے لیے اپنی رقوم پاکستان لانا دشوار تر ہوگیا ہے۔

ترسیلاتِ زر کے پانچ اہم مسائل

فری لانسرز کو اپنی رقوم پاکستان لانے میں پانچ طرح کے مسائل کا سامنا ہے:

1: ڈیفالٹ کے خطرہ کی وجہ سے عالمی اداروں کے اعتبار میں کمی

2: شرح مبادلہ میں عدم استحکام اور بے یقینی

3: پاکستانی بینکوں کی جانب سے ہر ٹرانزیکشن کے لیے سخت کے وائی سی اور عالمی پلیٹ فارمز سے ڈپازٹ ٹرانزیکشن کی ٹریکنگ کی سہولت کی عدم دستیابی

4: انٹرنیشنل پیمنٹ پلیٹ فارمزکی جانب سے آئی بی ایف ٹی ریٹ سے پچیس سے تیس روپے کم ریٹ پر ادائیگی اور من مانے سروس چارجز کی کٹوتی اور

5: ایف بی آر کی جانب سے فری لانسنگ رقوم کو ایکسپورٹ ترسیلات قرار دینا شامل ہیں

فری لانسنگ اور ڈیجیٹل سروسز ایکسپورٹ کرنے والے انفرادی فری لانسرز اور آئی ٹی کمپنیوں کے مطابق پاکستان کے لیے آئی ٹی ایکسپورٹ ترسیلات لانے میں مشکلات کی وجہ سے صرف30فیصد رقوم ہی پاکستان لائی جارہی ہیں باقی رقوم یا تو طویل التواء اور تاخیر کا شکارہیں جن کے موصول ہونے کا بہت کم امکان ہے یا پھر یہ رقوم بیرون ملک ہی استعمال کی جارہی ہیں۔

فری لانسرز اب نوکریوں کے متلاشی

ڈالر کا کم ریٹ ملنے اور بلند سروس چارجز کی وجہ سے فری لانسرز کی بڑی تعداد اب ڈیجیٹیل سروسز کی ایکسپورٹ کے بجائے پاکستان میں نوکریوں کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے پاکستان کے لیے آئی ٹی فری لانسنگ کے ذریعے ترسیلات میں نمو متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

آئی ٹی کے ماہر اور امریکا میں سافٹ ویئر کمپنی چلانے والے پاکستانی نوجوان وقاص حمزہ کے مطابق اگر آئی ٹی فری لانسنگ سے حاصل ترسیلات پاکستان منگوانے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں تو فری لانسنگ سے حاصل زرمبادلہ کی مالیت ایک ہی سال میں دگنی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فری لانسرز پاکستانی بینکوں یا پاکستان میں خدمات فراہم کرنے والے پلیٹ فارمز ویسٹرن یونین، Payoneer، منی گرام وغیرہ سے مد د لے سکتے ہیں جبکہ کچھ لوگ جن کے اکاؤنٹس بیرون ملک کھلے ہوئے ہیں وہ زوم اور وائس جیسے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں لیکن یہ سروسز بھی پاکستان کے لیے ٹرانزیکشن میں پانچ روز لگاتی ہیں۔

اس طرح سیکنڈوں میں ممکن ٹرانزیکشن کے لیے پاکستان کے خراب معاشی حالا ت کی وجہ سے کئی کئی روز انتظار کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ٹرانزیکشن کی مالیت کی حد بھی مقرر ہے۔ یہ اقدامات پاکستانی روپے کی قدر میں منٹوں کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی اور معاشی بے یقینی کی وجہ سے اٹھائے گئے۔

وقاص حمزہ کے مطابق فری لانسرز کا دوسرا بڑا مسئلہ پاکستانی بینکوں کا فری لانسرز کے ساتھ برتاؤ ہے۔ انٹرنیشنل پیمنٹ پلیٹ فارمز سے ڈپازٹ کرائے جانے پر پاکستانی بینک ایسے کسی ٹرانزیکشن کی تصدیق کی صلاحیت نہیں رکھتے اور فری لانسرز کو ٹکا سا جواب دے کر ٹال دیتے ہیں کہ ان کے پاس ایسے کسی ٹرانزیکشن کی کوئی اطلاع نہیں۔

پاکستانی بینکوں کے انٹرنیشنل پیمنٹ پلیٹ فارمز سے معاہدے نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل پیمنٹ پلیٹ فارمز سے پاکستان لائی جانے والی رقوم کے ٹرانزیکشن کی پاکستانی بینک ٹریکنگ نہیں کرپاتے۔

حکومت نے آئی ٹی ایکسپورٹ میں اضافہ کے لیے فری لانسرز اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت دی لیکن فری لانسرز اکاؤنٹ کھولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور ان اکاؤنٹس میں ترسیلات لانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

پاکستانی بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے فری لانسنگ پلیٹ فارم کی آئی ڈی اور ڈیجیٹل خدمات کی فروخت سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرتے ہیں حالانکہ فری لانسرز کی بڑی تعداد اپنے ذرائع سے یا براہ راست کلائنٹ سے رابطہ کرکے بھی پراجیکٹ کررہے ہوتے ہیں۔

وقاص حمزہ فری لانسرز کو رقوم پاکستان لانے میں درپیش مسائل کے حل کے لیے پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے نئی پالیسی کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی نئے ایس او پیز درکار ہوں گے۔ وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک قومی ایپلی کیشن بنائے جو تمام بینکوں کے ساتھ انٹی گریٹ ہو۔

پاکستان کے بڑے بینک عالمی پلیٹ فارم ”پے پال“ کے ساتھ منسلک ہیں فری لانسرز کے لیے ادائیگی کی مخصوص ایپلی کیشن بناکر تمام ایسے بینکوں سے انٹی گریٹ کیا جائے جو بین الاقوامی پیمنٹ پلیٹ فارمز سے شراکت داری رکھتی ہیں تاکہ باہر سے ڈپازٹ کی جانے والی رقوم کے ٹرانزیکشن کو ایپلی کیشن کے ذریعے رئیل ٹائم ٹریک کیا جاسکے۔ بینکوں کے درمیان صحت مند مسابقت ہو اور وہ مناسب چارجز کے ساتھ آئی بی ایف ٹی ریٹ پر رقوم پاکستان منتقل کرسکیں۔

فری لانسرز کی نظر میں پاکستانی بینکوں کی سب سے بڑی خامی باہر سے آنے والی ٹرانزیکشن جو کسی بھی انٹرنیشنل پلیٹ فارم سے کی جائے اس کی تصدیق کے مکینزم کا فقدان ہے۔

ڈپازٹ کرنے والے پلیٹ فارمز ٹرانزیکشن کی مکمل ٹریکنگ مہیا کرتے ہیں لیکن تھرڈ پارٹی پارٹنرز کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی بینکوں کے پاس ٹرانزیکشن کو ٹریک کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور پاکستانی بینک فری لانسرز کو صاف انکار کردیتے ہیں کہ ان کے پاس ایسے کسی ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ نہیں، حتی کہ سارے ثبوت اور ٹریکنگ مہیا بھی کی جائے تو بینکوں کے پاس تصدیق کا کوئی نظام نہیں۔

فری لانسرز کا کہنا ہے کہ جیسے تیسے فری لانسسنگ اکاؤنٹ کھلوابھی لیا جائے تو پاکستانی بینک ہر ٹرانزیکشن پر لمٹ لگادیتے ہیں اور آن لائن بینکنگ بلاک کردی جاتی ہے ہر ٹرانزیکشن کے لیے ثبوت دینا پڑتے ہیں دوسری جانب انٹرنیشنل پیمنٹ پلیٹ فارمز پاکستان کے معاشی حالات اور خدشات کی بناء پر آئی بی ایف ٹی سے بھی بہت کم ریٹ آفر کرتے ہیں اور ٹرانزیکشن چارجز کے نام پر من مانی کٹوتیاں کی جاتی ہیں۔ اکثر پیمنٹ پلیٹ فارمز آئی بی ایف ٹی سے بھی پچیس سے تیس روپے کم کا ریٹ آفر کرتے ہیں اور ٹرانزیکشن فیس بھی بہت زیادہ لے رہے ہیں۔ان وجوہات کی بناء پر پاکستانی فری لانسرز فری لانسنگ چھوڑ کر مقامی سطح پر ہی نوکریاں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں کہ محنت کرکے کمایا گیا پیسہ پاکستان لانا پراجیکٹ حاصل کرنے اور ان کی تکمیل سے بھی کہیں زیاہ مشکل ہے۔

پاکستانی بینکوں کی جانب سے کھڑی کردہ مشکلات سے تنگ آکر فری لانسرز اپنی رقوم بیرون ملک استعمال یا انویسٹ کررہے ہیں  جو قانونی طریقے سے رقوم نہیں لاپاتے وہ پاکستان سے امپورٹ کے لیے بالا ہی بالا ادائیگیاں کرکے پاکستان میں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ریٹ پر اپنی رقوم پاکستانی روپے میں حاصل کرلیتے ہیں۔

بعض صورت میں یہ ریٹ مارکیٹ سے 30سے 35روپے زائد بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح کا ہنڈی والا ہے جس میں پیسہ نہیں آرہا اور ڈیجیٹل خدمات کی ایکسپورٹ کا معاوضہ روپے کی شکل میں وصول کیا جارہا ہے۔ فری لانسرز کے لیے ٹیکس نظام کو آسان اور معاون بنانے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر نے فری لانسنگ کے لیے کوئی کٹیگری مخصوص نہیں کی بلکہ فری لانسنگ سے حاصل ہونے والی آمدن کو ”ریمی ٹینس“ تصور کیا جاتا ہے اور رقوم لانے والے فری لانسرز کو نوٹس ملنا شرو ع ہوجاتے ہیں۔

فری لانسرز کو ان نوٹسز کے جواب میں ایف بی آر کو بھی تمام دستاویزی ثبوت مہیا کرنا پڑتے ہیں جبکہ بیرون ملک کلائنٹ اتنی تفصیل سے ریکارڈ فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی سپورٹ کی جاتی ہے۔ ہر فری لانسرز کے لیے کلائنٹ تک ریکارڈ کے حصول کے لیے رسائی بھی ممکن ہیں۔ ٹیکس کے مسائل بھی فری لانسرز کی تعداد کم کرنے میں اہم کردار اد اکررہے ہیں۔ فری لانسرز کی بڑی تعداد جو ان مسائل کا تجربہ کرچکی ہے کام کرنے کے بجائے جاب کرتے کو ترجیح دے رہے ہیں اور وصولیوں کے ساتھ بینکوں اور ایف بی آر کے سسٹم کی مشکلات کی وجہ سے فری لانسنگ ترک کرنے پر مجبور ہیں۔

30 ہزار ڈالر کی حد!

اسٹیٹ بینک نے فری لانسنگ سے حاصل ہونے والی ترسیلات کے لیے کوئی سہولت مہیا نہیں کی آئی ٹی ترسیلات کو بھی عام ترسیلات کا درجہ دیا جاتا ہے اور کوئی بھی فری لانسر سال میں 30ہزار ڈالر سے زائد مالیت کی ترسیلات وطن نہیں لاسکتا، اکثر بینک یہ حد پوری ہونے سے پہلے ہی ہر ایک ٹرانزیکشن پر اکاؤنٹ معطل کردیتے ہیں اور فری لانسرز سے ہر ٹرانزیکشن سے متعلق دستاویزی ثبوت طلب کیے جاتے ہیں۔ مشکل اور پیچیدہ طریقہ کار، ہر ٹرانزیکشن کے لیے دستاویزی ثبوت مہیا کرنے جیسی شرائط کی وجہ سے فری لانسرز رقوم پاکستان لانے کے لیے غیرقانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک فری لانسرنے بتایا کہ وہ گزشتہ ڈھائی سال سے فری لانسنگ کے ساتھ ڈیجیٹل خدمات ایکسپورٹ کررہے ہیں ان کی سافٹ ویئر ڈیولمپنٹ کمپنی اچھے کلائنٹس بناچکی ہے اور تمام رقوم قانونی طریقے سے پاکستان لانا چاہتی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے سالانہ 30ہزار ڈالر کی حدر مقرر کیے جانے، ٹیکس مشکلات اور پاکستانی بینکوں کے برتاؤ کی وجہ سے وہ بمشکل 30سے40فیصد رقوم پاکستان لاپاتے ہیں۔ا

س کے لیے چھ سے سات ہزار مختلف چینلز اور ملٹی پل بینکوں کے اکاؤنٹس استعمال کرنا پڑتے ہیں اور ٹرانزیکشن کی حد کی وجہ سے کئی ٹرانزیکشن کرنا پڑتے ہیں جس پر بہت وقت لگتا ہے۔ تقریبا تمام فری لانسرز کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے  اور فری لانسرز کی لگ بھگ 70فیصد رقوم یا تو ٹرانزیکشن میں پھنسی ہوئی ہیں یا پھر وہ رقوم پاکستان نہیں لائی جاسکتیں۔

انٹی گریشن ایکسپرٹس کے سی ای او عمیر اعظم نے فری لانسرز کو درپیش مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی محنت کی کمائی کے حصول میں تاخیر اور مشکلات پاکستان کی فری لانسنگ کمیونٹی کو متاثر کررہی ہے۔

معاشی صورتحال بہتر ہونے سے شرح مبادلہ میں استحکام کی امید ہے تاہم حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان مشکلات کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز اپنے کلائنٹ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اور گلوبل فری لانسنگ کی مارکیٹ میں مشکل سے بنایا گیا مقام اور قابل قدر مارکیٹ شیئر دوسرے ملکوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

بینک اور فری لانسرز

عمیر اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر زور دیا کہ وہ مزید لوکل بینکوں کو فری لانسرز کی معاونت کی ہدایت کرے اور رقوم پاکستان لانے کے لیے انٹرنیشنل پیمنٹ سروس فراہم کرنے والے پلیٹ فارمز کے ساتھ اشتراک کیا جائے  اور پاکستانی فری لانسرز کے لیے قابل رسائی اور لاگت کے لحاظ سے موزوں سروسز کی پاکستان میں فراہی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی پر زور دیا کہ کلائنٹس کو انوائس کرنے اور بین الاقوامی رقوم پاکستان لانے میں لوکل پلیٹ فارمز اور فری لانسرز کی مدد کی جائے۔

You might also like

Comments are closed.