لندن: ایک نئی تحقیق کے مطابق ماہرینِ نباتیات نے دنیا بھر میں ایسے 33 ’ڈارک اسپاٹس‘ کی نشان دہی کی ہے جہاں پودوں کی ہزاروں اقسام دریافت کیے جانے کی منتظر ہیں۔
بورنو کے مقامی پام ٹری جو زیر زمین پھول کھلاتے ہیں سے لے کر میلاگیسی آرچڈ تک جن کی نمو دیگر پودوں منحصر ہوتی ہے، محققین ہر برس درجنوں نئی انواع کے پودے دریافت کر رہے ہیں۔ تاہم، ایک لاکھ سے زائد انواع کے متعلق خیال کیا جاتا ہے وہ غیر دریافت شدہ ہیں اور ان کی اکثریت کو معدومیت کاخطرہ لاحق ہے۔
کیو کی رائل بوٹنک گارڈنز کی رہنمائی میں چلنے والے نئے منصوبے میں دنیا کے ایسے حصوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کو ماہرین کی بھرپور توجہ ملنی چاہیے۔
مڈاغاسکر سے لے کر بولیویا تک بھی سائنس دانوں نے نباتیاتی تنوع کے علاقوں کی شناخت کی ہے۔
مذکورہ علاقوں میں 22 علاقے ایشیاء میں ہیں جہاں تحقیق کی ضرورت ہے ان علاقوں میں سماٹرا کا جزیرہ، مشرقی ہمالیہ، بھارت میں آسام اور ویتنام شامل ہیں۔ افریقا میں مڈاغاسکراور جنوبی افریقا کے کیپ صوبے جبکہ جنوبی امریکامیں کولمبیا، پیرو اور جنوب مشرقی برازیل کے علاقے شامل ہیں۔
جرنل نیو فائٹولوجسٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کے لیے کیو محققین کے گزشتہ برس کے تجزیے کو استعمال کیا گیا جس میں معلوم ہوا تھا کہ تمام غیر دریافت شدہ پودوں کی تین چوتھائی تعداد کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ نامعلوم انواع ممکنہ طور پر مستقبل کی ادویات، ایندھن یا دیگر اختراع کا اشارہ رکھ سکتے ہیں۔
Comments are closed.