لاہور: ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے جاری کیے گئے حکم امتناع (اسٹے آرڈرز) چینی مہنگی ہونے کی وجہ ہیں۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت کو ایک خفیہ رپورٹ پیش کی گئی ہے، جس میں پتا چلا ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناعی ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور کے جسٹس شاہد کریم اور جسٹس انور حسین کے جاری کردہ حکم امتناعی نے چینی مہنگی ہونے کی راہ ہموار کی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جا رہا ہے اور بھتہ خوری کے ساتھ مل کر شوگر ملز، بروکرز اور سٹہ بازوں کے ذریعے ناجائز بھاری منافع کمایا جا رہا ہے۔ اس کرشنگ سیزن کے دوران ملک میں کل 7.730 ملین میٹرک ٹن چینی (کیری اوور اسٹاک سمیت) پیدا ہوئی، جس میں سے 5.032 ملین میٹرو ٹن کا ذخیرہ پنجاب میں تھا۔ پنجاب کے ذخائر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔
دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 4 مئی 2023 ء کو لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے اس اعتراض پر کہ قیمتوں کے تعین کا موضوع صوبائی ہے۔ اگلی تاریخ 20 ستمبر 2023ء مقرر کی۔ اس طرح کسی نہ کسی بہانے اسٹے آرڈر کی تاریخوں میں توسیع کی جارہی ہے اور شوگر ملز اور سٹہ باز 100 روپے فی کلو قیمت وصول کر رہے ہیں۔
آج تک شوگر ملوں کے ذریعے تقریباً 1.4 ملین میٹرک ٹن چینی اوسطاً 40 روپے فی کلو اضافی کے حساب سے فروخت کی جا چکی ہے۔ شوگر ملز، بروکرز، ڈیلرز اور قیاس آرائیوں نے اس طرح ایک کروڑ روپے کی خورد برد کی۔ 55 سے 56 ارب کی اضافی رقم صرف اسٹے آرڈرز کی وجہ سے حاصل کی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جسٹس شاہد کریم نے چینی کی سپلائی چین کی نگرانی کے خلاف حکم امتناعی بھی جاری کیا۔
رپورٹ کے مطابق صوبائی حکام چینی کی نقل و حرکت اور بلوچستان کے راستے افغانستان میں اس کی اسمگلنگ کو روکنے سے قاصر ہیں۔ ایم ٹی چینی باہر اسمگل کی گئی ہے۔ اس اسمگلنگ نے ملک اور بالخصوص پنجاب میں چینی کے اسٹریٹیجک ذخائر کو ختم کر دیا ہے۔ یہ ذخائر آنے والے سال میں چینی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تھے۔
پنجاب حکومت کو پیش کی گئی خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گنے کی کھڑی فصل کی کاشت میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اگلے سال پاکستان کو چینی کی درآمد پر خاطر خواہ زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔ قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ عدالتوں کے حکم امتناعی ہیں۔ شوگر ملز کے تمام کیس جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں چلائے جاتے ہیں۔ تمام کیسز میں شوگر ملوں کے حق میں اور عام لوگوں اور کسانوں کے خلاف فیصلے ہوئے ہیں۔
شوگر ملز اور بروکرز کا گٹھ جوڑ (ہر مِل میں 5، 6 بروکرز ہوتے ہیں جو ملک میں مزید ڈیلرز کو چینی فروخت کرتے ہیں) قیمتوں میں اضافے کا ذمے دار ہے۔ پاکستان میں اس سال چینی کافی تھی۔ بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملز نے چینی افغانستان اسمگل کرنا شروع کر دی۔ چینی کی قیمتیں بروکرز مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے بڑھاتے ہیں۔ ملوں میں پڑی چینی ہاتھ بدلتی ہے اور اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر نیا خریدار 5 سے 20 روپے فی کلو تک کا اضافہ کرتا ہے۔ اس عمل کو شوگر ملز کی حمایت حاصل ہے کیوں کہ ان کی چینی بھی ایک پیسہ خرچ کیے بغیر مہنگی ہو جاتی ہے۔شوگر کی صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ چینی کی قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ دوسرے صوبوں میں چینی کی شدید قلت ہوگی اور وہاں قیمتیں زیادہ ہوں گی۔ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو روکنے کی فوری ضرورت ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکم امتناعی کو جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ملک اور صوبہ مزید بحرانوں میں ڈوب جائے گا۔ مطلع شدہ قیمت کے بغیر، محکمہ خوراک اور ضلع ایڈمن ذخیرہ اندوزی کی جانچ یا قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ قیاس آرائی کرنے والوں ، بروکرز، یا جنہوں نے چینی مارکیٹ میں تباہی مچا رکھی ہے، انہیں ایم پی او کے تحت حراست میں لینے کی ضرورت ہے۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اس طرح کی قیاس آرائیوں کا پردہ فاش کرنے کا کام سونپا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب پنجاب میں چینی کی قیمتوں میں اضافے پر نگراں وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا، جس میں سیکرٹری خوراک نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ عدالت عالیہ کی جانب سے دیے جانے والے 2 حکم امتناعی (سٹے آرڈر) کے باعث ہوا۔
نگراں وزیراعلیٰ نے ہدایت جاری کی کہ فوری طور پر چینی کے معاملے پر دیے جانے والے اسٹے آرڈرز خارج کروائے جائیں۔
Comments are closed.