اسلام آباد:قومی اسمبلی نے 14ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9ہزار 415 ارب مقرر کر دیا گیا پینشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی ہے این ایف سی کے تحت 5ہزار 276 ارب کی بجائے 5ہزار390 ارب ملیں گے،فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، بی آئی ایس پی پروگرام 459 ارب کی بجائے 466 ارب کر دیئے گئے ہیں ،وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 9 سو ارب کا ہوگا۔
بجٹ کی منظوری کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا کوئی رکن بھی موجود نہیں تھا جبکہ اپوزیشن کے مولانا عبدالاکبر چترالی اور غوث بخش مہر کے سوا اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سمیت حزب اختلاف کا کوئی رکن اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
اتوار کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا،اجلاس میں فنانس بل کی شق وار منظوری لی گئی اپوزیشن کے رکن عبدالاکبر چترالی کی ترمیم منظور، حکومت نے مخالفت نہیں کی، ترمیم کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹیوں کو بارہ سو سی سی تک گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی،اس وقت 1300 سے 1600 سی سی تک گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
وزیر خزانہ نے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی حد پچاس روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60روپے فی لیٹر کردی گئی ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کو ساٹھ روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا،اجلاس میں ترمیم کی گئی کہ تین ہزار دو سو ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا تاہم متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا،اجلاس میں پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور پرانے بلبوں پر یکم جنوری2024سے اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی ترمیم منظور کر لی گئی،ترمیم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کی ،ترمیم کے تحت پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری 2024سے دو ہزار روپے فی پنکھا ٹیکس عائد ہوگا،پرانے بلبوں پر یکم جنوری 2024سے بیس فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر برائے خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہمارا سالانہ 800 سو ارب روپے پینشن کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے، ہمیں پیشن کے حوالے اصلاحات کرنا پڑیں گی اور ہم نے اس کا آغاز کر دیا ہے ورنہ یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گا ،ہمیں چاہیے کہ ہم پینشن فنڈ کو کے حوالے سے لائحہ عمل طے کریں۔
رکن اسمبلی غوث بخش مہر نے کہا کہ زراعت کا شعبہ پہلے ہی ڈوبا ہوا ہے، کھاد پر سبسڈی ختم کرنے سے یہ مزید تباہ ہو جائے گا ،ساری دنیا زراعت کو سبسڈی دے رہی ہے ہمیں اس کو ختم نہیں کرنا چاہیے ۔
وفاقی وزیر آبی وسائل خورشید شاہ نے کہا کہ ایک فیکٹری کو چلانے کے لیے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو مفلوج کرنا کہاں کی عقلمندی ہے اس فیکٹری کو بند کر دیں زراعت کو تباہ نہ کریں یہ ظلم نہ کریں۔
اس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈی اے پی کھاد پاکستان میں تیار ہو رہی ہے اس کمپنی میں مزید دو سو ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار ہے اگر ضرورت ملک سے پوری ہو جائے تو باہر سے منگوانے کی کیا ضرورت ہے،سبسڈی درآمدی ڈی اے پی پر ختم کی گئی ہے آئی ایم ایف پروگرام کا 9 واں ریویو بھی ہے،ملک کی مجموعی مجبوری کے تحت کچھ اقدامات اٹھانا پڑے ہیں اس کے بعد مل بیٹھ کر کوئی حل کر لیں گے۔
وفاقی وزیر مولانا اسعد محمود نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے وقت دس سال کے پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت پانچ سال کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ دی گئی تھی ہم نے کابینہ میں مطالبہ کیا تھا کہ مزید ایک سال کی چھوٹ دی جائے لیکن اب ان سے گزشتہ پانچ سال کا ٹیکس بھی مانگا جا رہا ہے جب تک حکومت تمام وعدے پورے نہیں کرتی تب تک فاٹا کو دی گئی تمام سہولیات کو برقرار رکھا جائے ،فاٹا میں ریفرنڈم کروا کر وہاں کی عوام سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری وزارت کے حوالے سے ایک ممبر نے تحریک استحقاق جمع کروائی ہے اس کا جو بھی فیصلہ آئے وہ ایوان کے سامنے لایا جائے ،یہ انتظامی معاملہ ہے اس کو سیاسی نہ بنایا جائے ہم نے ایک سال میں اپنی وزرات کے دو ہزار کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں جماعت اسلامی کے ایک رکن مولانا عبدالاکبر چترالی کے سوا تمام حکومتی و اپوزیشن ارکان نے فنانس بل میں سود شامل ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کی مخالفت کردی۔
جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی پیمانے پر جانچنے کے لئے بھیجنے کا مطالبہ کردیا کیا ،ترمیم کے مطابق فنانس بل سودی نظام پر مبنی ہے حکومت اسے منظور کرکے وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف جارہی ہے، وفاقی شرعی عدالت سود کے خاتمے کا فیصلہ دے چکی ہے۔
مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے حکومت سود کے حق میں دائر دودرخواستیں بھی سپریم کورٹ سے واپس لے چکی ہے اب فنانس بل میں سود شامل ہے اس لئے اگر اس پر اسلامی نظر یاتی کونسل کی رائے نہیں لی جاتی تو یہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی۔
اسپیکر نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو رائے کے لئے بھیجنے کے لئے ووٹنگ کرائی، سود کی مخالفت کرنے والی حکومتی اتحادی جے یو آئی نے بھی فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی مخالفت کردی۔ حکومتی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی مخالفت کی۔
جماعت اسلامی کے واحد رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کے حق میں ووٹ دیا۔ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے مسترد کر دی۔
Comments are closed.