بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

قطب جنوبی کی سرد، برفیلی اور تاریک گہرائی میں اچھوتے جانوروں کی دریافت

لندن: برطانوی سائنسدانوں نے قطب جنوبی کی 900 میٹر موٹی برف کے نیچے سمندری تہہ میں بالکل نئی قسم کے جانور دریافت کیے ہیں جنہیں دیکھ کر وہ خود بھی حیران ہیں۔

تفصیلات کے مطابق برٹش انٹارکٹک سروے کے ماہرین نے قطب جنوبی (انٹارکٹیکا) میں ’’فلچنر رون آئس شیلف‘‘ کے مقام پر برف کی موٹی پرت میں ایک پتلا سوراخ (بور ہول) کیا جس کی گہرائی 900 میٹر تھی۔

سوراخ کے نچلے حصے میں موجود سمندری تہہ کا مشاہدہ کرنے کےلیے سرچ لائٹس والے طاقتور کیمرے اندر اتارے گئے۔

سمندری تہہ میں ایک بڑے پتھر پر چپکے ہوئے کچھ عجیب و غریب جاندار نظر آئے جو اسفنج کی طرح دکھائی دیتے تھے۔

اس علاقے میں سیکڑوں میل دور تک روشنی کا کوئی گزر نہیں تھا جبکہ پانی کا درجہ حرارت بھی صرف 2.2 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

اس سب کے باوجود وہ جانور مستقل اس پتھر سے چپکے ہوئے تھے اور کسی نامعلوم ذریعے سے غذا اور توانائی حاصل کرتے ہوئے خود کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔

اگرچہ سرد اور تاریک سمندری گہرائی میں اب تک مچھلیوں، جیلی فش، کیچووں اور ’کرِل‘ (krill) جیسے جھینگا نما جانور دریافت ہوچکے ہیں لیکن یہ تمام جانور غذا حاصل کرنے کےلیے سمندر میں ادھر سے اُدھر تیرتے پھرتے تھے۔

ان کے برعکس، نئے دریافت ہونے والے یہ جانور مستقل ایک پتھر سے چپکے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں سے انہیں غذا حاصل ہورہی ہے جسے غالباً وہ اپنے جسم پر فلٹر جیسی کسی ساخت کے ذریعے جذب کرکے الگ کررہے ہیں۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’فرنٹیئرز اِن میرین سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں ماہرین نے جہاں اس دریافت کی تفصیل بیان کی ہے، وہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ شاید اس قبیل کے جانور پہلے بھی دریافت ہوچکے ہیں لیکن یہ جاننے کےلیے ان کے نمونے حاصل کرنا ضروری ہوں گے۔

فی الحال ماہرین کے سامنے ان جانوروں سے متعلق کچھ اہم سوالات ہیں: یہ جانور یہاں تک کیسے پہنچے اور کب سے یہاں ہیں؟ اگر یہ ہمیشہ یہیں رہتے ہیں تو اپنی غذا کہاں سے اور کیسے حاصل کرتے ہیں؟ (کیونکہ ارد گرد کے سمندری پانی میں بہت معمولی غذائی اجزاء شامل ہیں۔) ان کی غذا کیا ہے؟ زندگی سے ڈھکا ہوا یہی ایک زیرِ آب پتھر ہے یا پھر اس طرح کے پتھر عام ہیں؟ اور، سب سے بڑھ کر، اگر یہ برفیلی پرت پگھل کر ختم ہوگئی تو ان جانوروں کا کیا ہوگا؟

امید ہے کہ تحقیق کے اگلے مرحلے میں یہ اور ان جیسے کئی دوسرے سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی جائے گی۔

You might also like

Comments are closed.