بارسلونا: اسپین اور پرتگال کے سائنسدانوں نے آم کے پتے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا پلاسٹک تیار کرلیا ہے جو غذا کو الٹراوائیلٹ شعاعوں اور جراثیم سے بچا کر لمبے عرصے تک محفوظ رکھتا ہے۔ یہ پلاسٹک 250 ڈگری سینٹی گریڈ جتنی گرمی بھی برداشت کرسکتا ہے۔
آن لائن ریسرچ جرنل ’’فوڈ ہائیڈروکولائیڈز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، اس منفرد پلاسٹک میں آم کے پتوں سے حاصل شدہ اجزاء کے علاوہ، کاغذ کی تیاری سے بچ رہنے والے مادّے بھی شامل ہیں جنہیں ’’نینوسیلولوز‘‘ کہا جاتا ہے۔
ان دونوں اجزاء کے ملاپ سے تیار ہونے والا پلاسٹک ’’بایوایکٹیو‘‘ (حیاتی سرگرم) ہے یعنی زندگی سے متعلق کچھ مخصوص کیمیائی تعاملات (کیمیکل ری ایکشنز) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جب کھانے پینے کی کسی چیز مثلاً پھل، سبزی، گوشت یا تیار کھانے کو اس پلاسٹک میں لپیٹا جاتا ہے تو اپنی ان ہی بایوایکٹیو خصوصیات کی بدولت یہ غذا پر حملہ آور جرثوموں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ الٹراوائیلٹ شعاعوں کو بھی اپنے اندر سے گزرنے نہیں دیتا۔
ابتدائی تجربات میں اس پلاسٹک کو زہر خورانی (فوڈ پوائزننگ) کی وجہ بننے والے دو اہم جرثوموں یعنی اسٹیفائیلوکوکس آریئس اور ای کولائی سے غذائی تحفظ کےلیے کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔
علاوہ ازیں، ان ہی تجربات میں اس پلاسٹک نے اپنے اندر سے الٹراوائیلٹ شعاعوں کو بھی گزرنے نہیں دیا جو بصورتِ دیگر کھانے پینے کی چیزوں میں گلنے سڑنے کے عمل کو تیز کردیتی ہیں۔
اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے غذا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کےلیے کیمیائی مادّوں (فوڈ پریزروینٹس) کی ضرورت بھی نہیں رہے گی جو انسانی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کرسکتے ہیں۔
فی الحال اس پلاسٹک کو تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا ہے لیکن اب ماہرین کی یہی ٹیم ایسے طریقوں کی تلاش میں ہے جن کے ذریعے یہ پلاسٹک تجارتی پیمانے پر بھی تیار کیا جاسکے۔
Comments are closed.