کابل: ترجمان طالبان افغان مجاہدین ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ شرعی قوانین کے تحت خواتین کو تمام حقوق دیں گے،خواتین کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں برتاجائے گا،افغان خواتین تمام شعبوں میں قواعدوضوابط کے مطابق کردار ادا کرسکتی ہیں۔
کابل پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان طالبان نے کہا کہ آزادی ہمارا حق تھا ہم نے حاصل کرلیا،اپنے مذہب کے مطابق قوانین بنانا ہمارا حق ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ کسی سے انتقام نہیں لیا جائے گا،یقین دہانی کراتے ہیں کہ کسی سے کوئی تصادم نہیں ہوگا،امارات اسلامی کسی سے انتقام نہیں لے گی،سربراہ کے حکم پر سب کو معاف کردیا گیا ہے۔
ترجمان طالبان نے مزید کہاکہ ہم اندرونی اور بیرونی دشمن نہیں بنانا چاہتے،تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل اسلامی حکومت تشکیل دیں گے،کابل میں تمام سفارتخانوں کی سیکیورٹی بہت اہم ہے،سفارتخانوں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی،سابق حکومت کی وجہ سے سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ مضبوط اسلامی حکومت افغان قوم کا خواب ہے،جلد مضبوط اسلامی قومی حکومت تشکیل دیں گے، جس کے لیے نظام کی تشکیل پر تیزی سے کام جاری ہے،تمام سرحدیں طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
ترجمان طالبان نے مزید کہا کہ افغانستان میں افیون سمیت تمام مہلک منشیات کاخاتمہ کریں گے،2001میں افیون کی شرح صفر تھی،دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ افغانستان سے افیون کی کاشت کا خاتمہ کیا جائے گا،پاکستان اور روس سے اچھے تعلقا ت ہیں لیکن کسی بلاگ کا حصہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ القاعدہ یا کسی جنگجو کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے،غیر ملکی جنگجوؤں کیلیے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں،اسلحہ کسی اورملک اسمگل کرنا ناممکن ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز کے تمام نمائندے اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں ، تمام صحافیوں کواپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے 3باتوں کاخصوصی خیال رکھنا ہوگا،نشرواشاعت اسلامی روایات کے خلاف نہ ہو، نشرواشاعت میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے اورقومی مفادات کےخلاف کوئی چیز نشر نہیں کی جائے گی۔
ترجمان طالبان نے مزید کہا کہ اقتدار کی منتقلی سے پہلے شہر میں داخل ہونا نہیں چاہتے تھے، لیکن جب کابل میں لوٹ مار شروع ہوئی تو عوام کے تحفظ کے لیے شہر میں داخل ہوئے، قوانین بنانے کے لیے ہم اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق عمل کریں گے،مغربی دنیا کو ہماری اقدار اور ثقافت سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
Comments are closed.