پیساڈینا، کیلیفورنیا: اس سال فروری میں مریخ کی سطح پر اترنے والی خودکار گاڑی ’’پرسیویرینس‘‘ بھی انسانوں کی طرح ’’سیلفی بخار‘‘ میں مبتلا ہوگئی ہے جس نے گزشتہ روز اپنے ’’سر‘‘ کی سیلفی لے کر زمین پر بھیجی ہے۔
واضح رہے کہ مریخ پر بھیجی گئی یہ خودکار گاڑی یا ’’مارس روور‘‘ کئی طرح کے کیمروں اور مشاہداتی آلات سے لیس ہے جن میں سے ایک کا نام ’’واٹسن‘‘ ہے جو پرسیویرینس کے روبوٹ بازو (روبوٹک آرم) کے سرے پر نصب ہے۔
واٹسن بذاتِ خود ’’شرلاک‘‘ (SHERLOC) نامی ایک نظام کا حصہ ہے جو پرسیویرینس پر نصب ہے؛ اور جس کا مقصد مریخ کے ماحول میں زندگی سے تعلق رکھنے والے سالمات (مالیکیولز) کی تلاش اور شناخت کرنا ہے۔
’’شرلاک‘‘ اپنے لیزر اسپیکٹرو اسکوپ کے ذریعے مریخی مٹی، چٹانوں اور پتھروں کا تجزیہ کرتا ہے جبکہ اس کام کو مزید بہتر اور مؤثر بنانے کےلیے وہ خاص طرح کے دو کیمروں سے مدد لیتا ہے۔
مریخی روور کی سیلفی لینے والا کیمرا ’’واٹسن‘‘ بھی انہی میں سے ایک کیمرا ہے جسے پرسیویرینس کے لمبے ’’بازو‘‘ کے بالکل سرے پر نصب کیا گیا ہے۔
ایسی ہی ’’مریخی سیلفیوں‘‘ کے ذریعے زمین پر موجود سائنسدان، کروڑوں کلومیٹر دور اس گاڑی پر نظر رکھتے ہیں تاکہ اس کی عمومی کارکردگی یا کسی خرابی سے باخبر رہ سکیں۔
گزشتہ روز جب ناسا نے پرسیویرینس کی سیلفی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرائی تو کمنٹس میں بعض لوگوں نے پرسیویرینس اور ’’جونی فائیو‘‘ نامی سائنس فکشن فلم روبوٹ کے ’’چہروں‘‘ میں مماثلت تک تلاش کرلی۔ یہ روبوٹ 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کا مرکزی کردار بھی تھا۔
اگر آپ بھی مارس 2020/ پرسیویرینس کی تازہ ترین اور خام تصویریں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کےلیے ناسا کی ویب سائٹ پر ایک گوشہ مخصوص کردیا گیا ہے۔
Comments are closed.