بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب قرار

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں چودھری پرویز الٰہی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی رولنگ کو کالعدم قراردے دیا، جس کے بعد پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ قرار پائے ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ درست نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں، پنجاب کابینہ بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے، حمزہ شہباز  اور ان کی کابینہ فوری طور پر عہدہ چھوڑیں۔

فیصلے کے مطابق عدالتی فیصلے کی کاپی گورنر کو ارسال کی جائے۔  پرویز الٰہی آج رات ساڑھے گیارہ بجے حلف لیں گے۔ گورنر کسی وجہ سے حلف نہ لے سکیں تو صدر آج ہی نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں جب کہ حمزہ شہباز اور دیگر وزرا کو فوری طور پر عہدے چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔ عدالت نے فیصلے کی کاپی تمام فریقین کو پہنچانے کا حکم جاری کرتے ہوئے  کہا کہ حمزہ شہباز اب وزیراعلیٰ نہیں رہے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کو پرویز الٰہی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت کے مطابق معاونین خصوسی اور مشیران کے عہدے غیر قانونی ہیں، تاہم حمزہ شہباز نے جو قانونی کام کیے ہیں، وہ برقرار رہیں گے۔سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کی کابینہ بھی تحلیل کردی۔

قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر  عطا بندیال کی زیر سربراہی  3 رکنی خصوصی بینچ نے چودھری پرویز الٰہی  کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت  کی، جس کے آغاز پر وکیل عرفان قادر نے عدالت میں کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے۔

اس موقع پر فاروق نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کردیا۔چیف جسٹس نے فاروق  نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویز  الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔ دورانِ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔

You might also like

Comments are closed.