بوٹسوانا: انسانی تاریخ میں شاید پہلی بار کسی شہابِ ثاقب کے زمین پر گرنے سے قبل اس کے راستے کو دیکھا گیا ہے جس نے زمین پر گرنے سے قبل لگ بھگ سوا دو کروڑ میل کا سفر طے کیا ہے۔
اس کا نام 2018ء ایل اے رکھا گیا ہے جو 2 جون 2018ء کو زمین پر گرنے سے قبل کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا اور اس کا ایک حصہ بوٹسوانا میں واقع کالاہاری کے جنگلات سے ملا ہے۔ خیال ہے کہ ایک بڑے پتھر کی مانند یہ شہابیہ پانچ فٹ جسامت رکھتا تھا۔
12566 پونڈ وزنی یہ پتھر آخری وقت تک 37 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے محوِ سفر تھا۔ زمین سے 27 کلومیٹر کی فضا میں شہابیہ بھڑک اٹھا اور پورے چاند سے بھی 20 ہزار گنا روشن تھا۔
اس پر آسٹریلیئن نیشنل یونیورسٹی ریسرچ اسکول آف ایسٹرو نامی اینڈ ایسٹرو فزکس سے وابستہ کرسچیان وولف نے تحقیق کی ہے۔انہوں نے اس کا مفصل احوال گزشتہ ہفتے شائع ہوا ہے۔
دو جون 2018ء کو اس کی راہ دیکھی گئی اور زمین سے تصادم کی پیشگوئی کی گئی اور وہ فوراً ہی بوٹسوانا کی زمین سے جاٹکرایا۔ جامعہ ایریزونا میں کیٹیلینا اسکائے سروے کی رصدگاہ سے اس پر نظر رکھی گئی تھی۔ یہ مرکز زمین پر ٹکرانے والے چھوٹے پتھر اور بڑی چٹانوں کا ڈیٹا بناتا ہے۔
انسانی تاریخ میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب ایک شہابیے کو زمینی تصادم سے قبل دیکھا گیا۔ پہلا شہابیہ 2008ء ٹی سی تھری تھا جسے دس برس قبل ہی بھانپ لیا گیا تھا۔
جیسے ہی یہ واقعہ ہوا، کالاہاری جنگلات کے عملے نے اس کی تلاش میں مدد دی لیکن بہت تلاش کے باوجود اس کا صرف سوا انچ کا ٹکڑا ہی مل سکا جس کا وزن 18 گرام ہے۔ اسے شہابی پتھر کو حکومتِ بوٹسوانہ نے ایک قومی خزانے کا درجہ دیا ہے تاہم اس کے بعد بھی شہابیے کے مزید 23 ٹکڑے تلاش کرلیے گئے۔
ماہرین کے مطابق یہ نظامِ شمسی کے دوسرے بڑے شہابیے ویسٹا سے ٹوٹ کر الگ ہوا ہے۔ ویسٹا مریخ سے سیارہ مشتری کے درمیان فلکیاتی پٹی میں پایا جاتا ہے۔ اس شہابی پتھر میں زرقون کے ذرات بھی ہیں اور خیال ہے کہ یہ ساڑھے چار ارب سال قدیم ہے۔ اس پر تحقیق سے نظامِ شمسی کے کئی رازوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
Comments are closed.