بولونا، اٹلی: ماہرین نے روبوٹ میں تبدیلی کرکے اسے خودکلامی کے قابل بنایا جس کی بدولت وہ انسانوں سے بہتر رابطہ کرکے اپنے فیصلے بھی بہتر بناسکتا ہے۔
21 اپریل کو اس تحقیق کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر روبوٹ کی سوچ کو سنا جائے تو وہ انسانوں کے لیے قدرے بھروسہ مند بن سکتے ہیں۔ اس طرح انسان دوست روبوٹ کے ارادوں اور فیصلوں سے آگہی مل سکتی ہے۔
اٹلی کی جامعہ پالرمو کے اینٹونیو شیلا اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ روبوٹ کو عام افراد سے رابطہ کرنے والا ہونا چاہیے ناکہ وہ صرف انجینیئر اور سائنسداں سے ہی بات کرے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مشہور مددگار انسان نما روبوٹ پیپرکا انتخاب کیا ہے اور اسے خودکلامی سے سوچنے والا بنایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روبوٹ جو کچھ سوچتا ہے اسے آپ سن سکتےہیں۔
ہم انسانوں میں خودکلامی بہت مفید ہوتی ہے۔ اس سے اخلاقی رہنمائی، بہتر فیصلہ سازی اور مشکلات کا حل نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ عین یہی کیفیت اب پیپر روبوٹ میں جگانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کا ایک جدید ماڈل بنایا ہے۔ اب یہ روبوٹ ہر معاملے پر خود سے بات کرتا ہے اور بہتر فیصلے کی جانب بڑھتا ہے۔
اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ روبوٹ منجمند ہونے سے بچ گیا اور کئی الجھنوں میں اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔ پہلے مرحلے میں پیپر سے کہا گیا کہ وہ کھانے کی میز پر رومال رکھدے لیکن غلط جگہ پر۔ اس کے بعد روبوٹ نے خود سے پوچھا کہ آیا یہ درست ہوگا یا نہیں۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ اپنے مالک سے پوچھا اور اس کے بعد خود سے مزید سوالات کئے۔
’آہم، اس صورتحال سے میں مضطرب ہوں، میں کبھی اصول نہیں توڑتا، لیکن چونکہ مالک کو مایوس نہیں کرسکتا اس لیے میں وہی کررہا ہوں جس کا حکم ملا ہے،‘ پیپر نے خود کلامی کی۔ اس طرح سامنے بیٹھے ماہر نے جان لیا کہ روبوٹ کو ایک الجھن درپش تھی لیکن اس نے انسانی حکم کو ترجیح دی۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس طرح انسانوں اور روبوٹس کے درمیان شفافیت اجاگر ہوگی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سے پیپر نے خود سے باتیں کیں وہ اپنے کام تیزی سے کرنے لگا۔ اس طرح روبوٹ اخلاقیات اور برتاؤ کے مرتب کردہ بین الاقوامی معیارات کی پاسداری کرنے والا بن گیا۔ اس سے اے آئی، روبوٹ اور انسان روبوٹ روابط کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں اگلی نسل کے روبوٹ خود سے بات کریں گے اور اس کا تجزیہ کریں گے نہ کہ وہ بہری اور بھدی مشینوں کی طرح کام کریں گے۔ دوسری جانب خود انسان بھی روبوٹ سے برتاؤ اوران کا بہتر استعمال کرسکیں گے۔
Comments are closed.