لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے سود پر فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل واپس لے۔ سودی نظام اللہ اور اس کے رسولۖ کے خلاف جنگ اور آئین پاکستان کی مخالفت ہے، حکمران استعمار کے دباؤ پر دین بیزار اور عوام دشمن اقدامات سے باز رہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ قرضوں کی معیشت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، تمام غیر ملکی معاہدات کو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کر کے معاہدوں کی تفصیلات کو پبلک کیا جائے۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، کرپشن مسائل کی جڑ ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے طاقتور اشرافیہ، سول و ملٹری بیوروکریسی، وزرا، ارکان پارلیمنٹ، ججز اور دیگربڑے عہدوں پر فائز افراد کی مراعات جن میں مفت پٹرول، بجلی اور سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال شامل ہے، پر پابندی عائد کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بیڈگورننس، وی آئی پی کلچر اور حکمرانوں کی غیرسنجیدگی اور نااہلی کی وجہ سے مسائل میں ہر آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سودی نظام جاری رہا تو ترقی و خوشحالی نہیں آئے گی۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اسلامی نظام چاہیے، مختلف سرویز کے مطابق83فیصد عوام فوری طور پر سود سے نجات چاہتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو فی الفور نافذ کیا جائے۔ جماعت اسلامی عوام کی تائید سے اقتدار میں آ کر زکوٰة و عُشر کا نظام نافذ کرے گی اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ پاکستان پر آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پہلے سے قائم شدہ مثالوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک سے واپس لانے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں، غیرترقیاتی اور دفاعی اداروں کے غیرجنگی اخراجات پر کٹ لگایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معیشت میں بہتری نہ آئے۔ مسلسل خسارے میں چلنے ا ور ہر سال چھ سو ارب روپے کا نقصان کرنے والے اداروں اور کارپوریشنز کے بارے میں پارلیمنٹ کی مشاورت سے ٹھوس اور مستقل فیصلے کیے جائیں۔ قومی ترقی میں سمندر پار پاکستانیوں کی بھرپور شمولیت ہو جائے تو بحرانوں سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مائیکرواکانومک پالیسی کے ذریعے بزنس اور سروسز سیکٹرز کے ساتھ زراعت اور صنعت کو بھی ترجیح اول دی جائے۔ بنجر زمینوں کی آبادکاری اور کسانوں کو سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
Comments are closed.