ثمرباغ دیرپائن: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کبل پولیس اسٹیشن سوات میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ پر حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کی بجائے عذرلنگ قرار دیا ہے اور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
ثمرباغ دیرپائن میں انھوں نے شہدا کی درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے۔ امیر جماعت نے سوال کیا کہ دہشت گردوں سے چھینا ہوا آتشیں اسلحہ کثیر آبادی کے حامل پوائنٹ پر رکھنے کا رسک کیوں لیا گیا؟
امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا میں اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا، لوگ کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اور ماتم کرتے رہیں گے؟ حکومت کی وضاحت سے سو سوالات پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ خود سرکاری لوگوں کے بیانات میں واضح تضادات ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ماضی میں جتنے دھماکے ہوئے سوائے ایک کے جس کی انکوائری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی، حقائق منظرعام پر نہیں آئے، حتیٰ کہ آرمی پبلک سکول جیسے اندوہناک واقعہ کی انکوائری بہت لیٹ شروع کی گئی اور قوم اب تک نتائج کی منتظر ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے چند روز بعد سوات دہشت گردی کا واقعہ بجائے خود حکومتی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوال ہے اور یہ کہ کبل میں انسداد دہشت گردی کے پولیس سٹیشن میں خیبرپختونخوا میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کا دوسرا بڑا واقعہ ہوا جس میں 17لوگ شہید اور 50 سے زائد زخمی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل پشاور کے وسط میں انتہائی حساس علاقہ کی مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں پولیس سمیت کئی لوگوں کی جانیں گئیں، صوبہ میں لوگوں کے چہرے بجھے ہوئے ہیں، صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں پورے ملک میں عوام پریشان اور مایوس ہیں، حکومت کی اولین ذمہ داری شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے، اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ ذمہ داری انجام نہیں دے سکتیں جیسا کہ حالات سے واضح ہے تو براہ مہربانی گھر چلی جائیں۔
Comments are closed.