جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی پالیسی: جب نیلسن منڈیلا نے خاردار تار والے پنجرے سے ٹیسٹ میچ دیکھا
سنہ 2013 میں نیلسن منڈیلا کی وفات پر برطانوی کرکٹ گراؤنڈ میں ایک منٹ کی خاموشت اختیار کی گئی
نیلسن منڈیلا کا کہنا تھا ʹہم سیاہ فام ہمیشہ مہمان ٹیموں کو سپورٹ کیا کرتے تھے، جنوبی افریقہ کو نہیں۔ میں نے ڈربن ٹیسٹ دیکھا تھا۔ ہم سیاہ فاموں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھ سکیں۔ ہم سیاہ فاموں کے لیے سٹیڈیم میں خاردار تار والے پنجرے نصب کیے گئے تھے جن میں بیٹھ کر ہم نے وہ ٹیسٹ دیکھا تھا۔‘
’ہم لوگ ناخوش تھے کیونکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں تھی لیکن پھر نیل ہاروے کی سنچری نے آسٹریلیا کو جتوا دیا تو ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی اور ہم لوگ خوشی میں ناچتے گاتے گھر واپس گئے تھے۔‘
نسلی امتیاز پالیسی سے کرکٹ براہ راست متاثر
جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز کی پالیسی ( اپارتھائیڈ ) کے نتیجے میں وہاں کے شہری چار کیٹگریز سفید فام، سیاہ فام، رنگدار اور ایشیئن میں منقسم تھے۔ سفید فام اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود حاکم تھے اور سیاہ فام اکثریت میں ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم تھے۔
اس نسلی امتیاز کی پالیسی کا اثر کھیلوں پر بھی پڑا تھا یہی وجہ ہے کہ کھیلوں کی متعدد بین الاقوامی فیڈریشنز نے جنوبی افریقہ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں یہاں تک کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اس پر اولمپکس کے دروازے بھی بند کر دیے تھے۔
جنوبی افریقہ میں کرکٹ نسلی بنیاد پر کھیلی جاتی رہی تھی۔ جنوبی افریقہ اگرچہ ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہا تھا لیکن صرف انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف۔ ڈرامائی موڑ ُاس وقت آیا جب انگلینڈ کے ٹیسٹ کرکٹر باسل ڈی اولیورا کی وجہ سے جنوبی افریقہ پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے۔
باسل ڈی اولیورا سیاہ فام کرکٹر نہیں تھے۔ وہ کیپ کلرڈ یعنی رنگ دار تھے جو کیپ ٹاؤن میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے جنوبی افریقہ کی غیر سفید فام کرکٹ ٹیم کی نمائندگی بھی کی تھی لیکن جنوبی افریقہ میں مستقبل نہ دیکھ کر انھوں نے مشہور کرکٹ کمنٹیٹر جان آرلٹ کی مدد سے انگلینڈ میں سکونت اختیار کر لی اور اس کی طرف سے 44 ٹیسٹ کھیلے۔
جب سنہ 1968 میں انگلینڈ کی ٹیم کے دورۂ جنوبی افریقہ کا وقت آیا تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا سلیکٹرز باسل ڈی اولیورا کو ٹیم میں منتخب کریں گے؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جنوبی افریقہ کی حکومت اس بات کو سیاسی معاملہ نہ بنا دے۔
اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے وزیراعظم بی جے فوسٹر نے بظاہر یہ عندیہ دیا کہ باسل ڈی اولیورا جنوبی افریقہ کے لیے قابل قبول ہوں گے لیکن اصل میں وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔
انگلینڈ کے سلیکٹرز نے اس حقیقت کے باوجود کہ باسل ڈی اولیورا نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میں سنچری سکور کی تھی انھیں جنوبی افریقہ کے دورے کی ٹیم میں شامل نہیں کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً کرکٹ کا ہے لیکن انھیں زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ٹام کاٹرائٹ کے ان فٹ ہو جانے پر ان کے پاس ڈی اولیورا کو شامل کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
جنوبی افریقہ میں باسل ڈی اولیورا کی سلیکشن پر شور مچا اور ایم سی سی کو اس دورے کی منسوخی کا اعلان کرنا پڑا۔
اگرچہ کھیلوں کی دنیا میں جنوبی افریقہ کے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا لیکن باسل ڈی الیورا کے تنازع نے اس میں آخری کیل ثبت دی۔
جنوبی افریقہ نے نسلی امتیاز کی پالیسی کے دور میں اپنی آخری ٹیسٹ سیریز 1970 میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے ہی میدانوں میں کھیلی اور چار صفر سے جیتی۔ اس فاتح ٹیم کے کپتان ڈاکٹر علی باقر تھے جو بعد میں جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی بنے۔
اس سیریز میں حصہ لینے والے کرکٹرز میں بیری رچرڈز اور مائیک پراکٹر بھی شامل تھے جن کی غیر معمولی صلاحیتیں صرف کاؤنٹی کرکٹ تک محدود ہو گئیں اور دنیا ان جیسے ورلڈ کلاس کرکٹرز کو انٹرنیشنل کرکٹ میں دیکھنے سے محروم ہو گئی۔
باغی کرکٹ ٹیمیں جنوبی افریقہ میں
جن دنوں جنوبی افریقہ بین الاقوامی کرکٹ سے دور رہا اس کی فرسٹ کلاس کرکٹ جاری رہی۔ اس دوران سری لنکا، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے کرکٹرز کی ٹیموں نے بھی جنوبی افریقہ کے دورے کیے۔ ان ٹیموں کو چونکہ آئی سی سی اور ان کے اپنے کرکٹ بورڈز کی اجازت حاصل نہیں تھی لہذا ان کرکٹرز کو ان دوروں کی پاداش میں پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اس سلسلے کی پہلی ٹیم انگریز کرکٹرز کی تھی جس نے 1982 میں گراہم گوچ کی قیادت میں جنوبی افریقہ کا دورہ کیا۔ اس ٹیم میں گیارہ ٹیسٹ کرکٹرز شامل تھے اور اس دورے کے معاملات اس قدر خفیہ رکھے گئے تھے کہ دنیا کو اس وقت اس بارے میں پتہ چلا جب یہ ٹیم جوہانسبرگ پہنچ گئی۔ اس دورے میں شامل کرکٹرز پر تین سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔
سری لنکا نے سنہ 1982 میں اپنا اولین ٹیسٹ بندولا ورنا پورا کی قیادت میں کھیلا تھا لیکن اسی سال ورنا پورا چودہ کھلاڑیوں کی ٹیم لے کر جنوبی افریقہ جا پہنچے نتیجتاً ان سب پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی۔
اگلے دو برسوں کے دوران ویسٹ انڈین کرکٹرز کی دو ٹیموں نے بھی جنوبی افریقہ کے دورے کیے۔ ان ٹیموں کے کپتان سابق ٹیسٹ کرکٹر لارنس رو تھے اور ان میں آلون کالی چرن، کالن کرافٹ، سلویسٹر کلارک، برنارڈ جولین، ڈیوڈ مرے اور کالس کنگ جیسے مشہور کرکٹرز شامل تھے۔
اسی ایک دورے کے دوران فاسٹ بولر کالن کرافٹ کو اس وقت سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب انھیں کیپ ٹاؤن میں ٹرین میں سفر کے دوران ایک مسافر اور کنڈکٹر نے یہ کہہ کر بوگی سے زبردستی اترنے پر مجبور کر دیا کہ یہ صرف سفید فام لوگوں کے لیے مخصوص ہے۔
باغی ٹیموں کے دوروں کے معاملے میں آسٹریلوی کرکٹرز بھی پیچھے نہ رہے اور کم ہیوز کی قیادت میں آسٹریلوی کرکٹرز کی ٹیم نے بھی جنوبی افریقہ کے دو دورے کیے۔
کسی باغی ٹیم کا آخری دورہ سنہ 1990 میں تھا جب مائیک گیٹنگ کی کپتانی میں انگلینڈ کی ٹیم جنوبی افریقہ گئی۔
رابن جیکمین کو ویزا دینے سے انکار
سنہ 1980 میں انگلینڈ کی ٹیم جب ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کھیلنے گیانا پہنچی تو وہاں کی حکومت نے فاسٹ بولر رابن جیکمین کو یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکار کر دیا کہ ان کے جنوبی افریقہ سے روابط رہے ہیں۔ صورتحال اس قدر پیچیدہ ہو گئی کہ انگلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ کھیلے بغیر گیانا سے روانہ ہو گئی۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی
جنوبی افریقہ کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی سنہ 1991 میں ہوئی جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اس کی رکنیت بحال کر دی اور جنوبی افریقہ نے نومبر 1991 میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل انڈیا کے خلاف کولکتہ میں کھیلا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم کی قیادت 41 برس کے کلائیو رائس کر رہے تھے۔
جنوبی افریقہ کے لیے یادگار لمحہ وہ تھا جب اس نے پہلی بار 1992 کے عالمی کپ میں حصہ لیا۔ کیپلر ویسلز کی قیادت میں یہ ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی جہاں بارش سے متاثرہ میچ کا قانون فائنل تک اس کی رسائی میں رکاوٹ بن گیا۔ لوگ آج بھی یہ بات نہیں بھولے ہیں کہ جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے ایک گیند پر بائیس رنز کا ہدف دیا گیا تھا۔
یہ عالمی کپ 40 برس کے لیفٹ آرم سپنر عمر ہنری زندگی بھر یاد رکھیں گے کیونکہ وہ جنوبی افریقہ کے کرکٹ کی تاریخ میں پہلے غیر سفید فام کرکٹر بنے تھے جنھیں اپنے ملک کی نسلی امتیاز کی پالیسی کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھنے کا موقع ملا تھا۔
Comments are closed.