جنوبی کوریا: سائنسدانوں نے جان لیوا گیسوں کے اخراج سے خبردار کرنے والا ایک نظام بنایا ہے جو کان کنی اور سوریج لائنوں کے علاوہ جنگوں میں فوجیوں کی جان بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔
کارخانوں اور بوائلر سے بھی بسااوقات کاربن مونوآکسائیڈ اور امونیا سمیت کئی گیسوں کا حادثاتی اخراج ہوتا ہے۔ اب ایک دستی سینسر کو جسم پر ویئرایبل کی صورت میں پہنا جاسکتا ہے جسے جنوبی کوریا کی پوہانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( پوسٹیک) نے تیار کیا ہے۔
پاکستان سمیت کئی ممالک میں کانکن کانوں یا مین ہول کی گیس کی باعث دم گھٹنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں پوسٹیک کے پروفیسر جنسک رو اور ان کے ساتھیوں نے ہاتھوں میں پہنا جانے والے ہولوگرام سینسر بنایا ہے جو خطرناک گیسوں پر فوری خبردار کرتا ہے۔
انہوں نے گیس ری ایکٹو لکوئیڈ کرسٹل آپٹیکل ماڈیولیٹر بنایا ہے جو فوری طور پر ایک ہولوگرام کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جسے الارم بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس ایجاد کی تفصیل جرنل آف سائنس ایڈوانسس کی سات اپریل 2021 میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ سینسر تیل کے کنوؤں، گیس پلانٹس اور ایسے ہی دیگر خطرناک مقامات پر زندگی بچانے میں معاون ہوگا۔
اگرچہ گیس شناخت کرنے والے کمرشل سینسر دستیاب ہیں لیکن انہیں لے کر چلا نہیں جاسکتا ہے، وہ استعمال میں مشکل ہیں اور اپنے نتائج بہت دیر میں ظاہر کرتے ہیں۔ اب اس مسئلے کے حل میں ’میٹاسرفیس‘ استعمال کی ہے جو بصری دھوکوں میں اشیا کو غائب کرنے میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں روشنی کا ریفریکٹوو انڈیکس کچھ اسطرح قابو کیا جاتا ہے کہ دو طرفہ ہولوگرام یا تھری ڈی ویڈیو یا عکس حاصل ہوتا ہے۔
اسی طرح دستی آلے کی میٹاسرفیس پر ہولوگرام گیس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے ہی زہریلی گیس سینسر پر پڑتی ہے لیکوئڈ کرسٹل مالیکیول کی ترتیب بدلنے ہولوگرام تشکیل پاتا ہے۔ سب سے پہلے اس پر آئسوپروپائل الکحل کو آزمایا گیا جو خطرناک گیس ہے اور معدے اور سردرد، غنودگی ، یہاں تک کہ لیوکیمیا کی وجہ بھی بنتی ہے۔ سینسر نے اسے ایک منٹ میں شناخت کرلیا خواہ اس کی مقدار 200 حصے فی دس لاکھ تھی اور اس کی اطلاع ہولوگرام پر ظاہر ہوئی۔
یہ پورا نظام نینو کمپوزٹنگ پر بنایا گیا ہے جسے لچکدار پرت پر بنایا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زہریلی گیسوں کی شناخت میں یہ ایک مؤثر آلہ ثابت ہوگا۔
Comments are closed.