کیو: سابق سوویت یونین کے جوہری بجلی گھر ’’چرنوبل‘‘ کے ملبے میں موجود تابکار مادوں سے ایک بار پھر تابکاری کے اخراج میں اضافہ ہونے لگا ہے جس سے کسی نئے تابکار حادثے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
سابق سوویت یونین کی ریاست یوکرائن کے قصبے پریپیات میں 1986 میں چرنوبل کا تابکار حادثہ آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کو یاد ہے۔ موجودہ یوکرائن میں قائم اس جوہری بجلی گھر میں حادثے کے بعد پھیلنے والی تابکاری نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس حادثےنے سابق سوویت یونین کو نہ صرف مالی نقصان پہنچایا بلکہ اس تابکاری کےاثرات آئندہ کئی سال تک لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارتے رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ایٹمی بجلی گھر کی باقیات میں موجود تابکار مادّوں سے تابکاری کا اخراج بتدریج کم ہوتا گیا لیکن اب یہ خبر ملی ہے کہ چرنوبل کی باقیات سے تابکاری کے اخراج میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا ہے۔
امریکی تحقیقی جریدے ’’سائنس‘‘ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چرنوبل کے ملبے تلے دبے ہوئے ری ایکٹر ہال میں موجود یورینیم ایندھن کی باقیات سے تابکار نیوٹرونوں کے اخراج میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا ہے لیکن بظاہر اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی۔ یہی نہیں بلکہ اس تابکاری کا اخراج رکنے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اس پلانٹ کی مانیٹرنگ کرنے والے سائنس دانوں کا کہا ہے کہ پلانٹ کے زیر زمین کمرے سے (جسے 305/2 کے نام سے جانا جاتا ہے) نیوٹرونوں کے اخراج میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ کمرہ اُس تابکار مادّے سے بھرا ہوا ہے جو چرنوبل حادثے کے دوران شدید گرمی کے باعث پگھل کر لاوے کی شکل میں آگیا تھا اور بعد ازاں ٹھوس شکل اختیار کرکے یہاں پرت در پرت جمع ہوگیا۔ یہ مادّہ تابکار یورینیم، گریفائٹ اور مٹی پر مشتمل ہے جسے مجموعی طور پر ’’ایندھن والا مواد‘‘ (فیول کنٹیننگ مٹیریلز) یا مختصراً ’’ایف سی ایم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نیوٹرونوں کا بڑھتا ہوا اخراج یہ اشارہ کر رہا ہے کہ اس ’’ایف سی ایم‘‘ کے یورینیم ایٹموں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل (فشن ری ایکشن) ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے۔
برطانیہ کی شفیلڈ یونیورسٹی میں جوہری مادوں کے کیمیا دان نیل حیات کے مطابق ’اب یہ تابکار فضلہ اسی طرح سلگ رہا ہے جس طرح باربی کیو کے گڑھے میں کوئلہ سلگتا ہے،‘ تاہم اگر طویل عرصے تک اسے یونہی چھوڑ دیا گیا تو اس ’سلگتے ہوئے مادے‘ کے مکمل طور پر بھڑکنے کے امکانات ہیں جس کا نتیجہ ایک اور ایٹمی حادثے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔
یوکرائن کے دارالحکومت کیو کے انسٹیٹیوٹ فار سیفٹی پرابلمز آف نیوکلیئر پاور پلانٹ کے سینئر ریسرچر، میکسم سولیو کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ اتنا تباہ کن نہیں ہوگا جیسا 1986 میں ہوا تھا؛ جس کا نتیجہ ہزاروں اموات کی صورت میں سامنے آیا تھا اور تابکار بادل پورے یورپ پر چھا گئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ چار سال سے روم نمبر 305/02 میں نیوٹرونز کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی سطح میں بغیر کسی حادثے کے اگلے کئی سال تک اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس کی سطح ایسے ہی بڑھتی رہی تو پھر سائنس دانوں کو کسی حادثے سے بچنے کےلیے اس کا حل نکالنا پڑے گا۔
اگر یہ تابکار مادے ایک بار پھر بھڑک گئے تو ان سے ہونے والے دھماکوں سے خصوصی فولاد اور کنکریٹ کے وہ مضبوط جنگلے تباہ ہوجائیں گے جنہیں حادثے کے ایک سال بعد ہی تباہ ہونے والے ری ایکٹر4 کے گرد لگادیا گیا تھا۔ یہ حفاظتی جنگلے اب پرانے ہوچکے ہیں اور بھاری ملبے اور تابکار مٹی سے بھرے علاقے میں یہ شدید دھماکے سے بہ آسانی تباہ ہوسکتے ہیں۔
Comments are closed.