سپریم کورٹ نے زوالفقار علی بھٹو قتل صدارتی ریفرنس کی سماعت 11جنوری تک ملتوی کر دی۔
اس کارروائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے یوٹیوب کے ذریعے براہ راست نشر کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے تشکیل کردہ نو رکنی بینچ نے سماعت شروع کی، جس میں اعلیٰ جج نے بینچ کی تشکیل کی وضاحت کی۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوپھانسی کیس میں صدارتی ریفرنس 11 سال کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت کرنے والے لارجر بینج میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سماعت کے شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آ گئے۔
اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس صدر نے اس ریفرنس کو فائل کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری تھے، جنہوں نے ریفرنس دائر کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا اس ریفرنس کے بعد کتنے صدر آئے! جس پرعدالت کو بتایا گیا کہ 2 صدر اس ریفرنس کے بعد آئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتنے لمبے عرصے تک کیس دوبارہ فکس نہ ہونے پر بطور چیف جسٹس پاکستان معذرت چاہتا ہوں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا۔ دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے۔ 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔ احمد رضا قصوری نے روسٹرم پر آکر نسیم حسن شاہ کے نوائے وقت میں انٹرویو کا حوالہ دے دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکرپٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں۔ صدراتی ریفرنس کی نمائندگی کس نے کی تھی؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایڈووکیٹ بابر اعوان اس وقت صدارتی ریفرنس میں وکیل تھے۔ وہ اس وقت عدالت میں موجود نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ ذولفقار علی بھٹو کیس کی سماعت 11 نومبر 2012 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی بنچ نے کی تھی جو کہ مجموعی طور پر پانچویں سماعت تھی۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ نے اعلان کیا ہے کہ سماعت اس کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی جائے گی یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس طرح کی دوسری مثال ہے۔
چیف جسٹس عیسیٰ نے ایک ایسے قانون سازی سے متعلق کیس میں بے مثال اقدام کا انتخاب کیا تھا جس نے کسی بھی قانونی معاملے کو براہ راست اٹھانے کے لیے چیف جسٹس کی صوابدید کو کم کر دیا تھا، جسے عام طور پر سوموٹو ایکشن کہا جاتا ہے، اور اپنے ساتھی ججوں کو مقدمات سونپنے کے ان کے اختیارات کو روک دیا تھا۔
اس سے قبل پیر کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے دائر درخواست کے ذریعے سماعت کو براہ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
Comments are closed.