شام کی جنگ: خیمہ بستیوں میں سیلابی صورتحال کے بعد 20 ہزار خیمے خالی
ترک سرحد کے قریب ایک بچ اور بچی اپنے سیلاب زدہ ٹیٹ کے پاس موجود ہیں
تیز بارش اور برفباری کے بعد تیز ہواؤں اور سیلاب نے شمالی مغربی شام میں قائم خیمہ بستیوں میں رہنے والے بعد 20 ہزار افراد کو خیمے خالی کرنے پر مجبور کردیا۔
امدادی ادارے کئیر کا کہنا ہے کہ ادلب اور حلب کے صوبوں میں کم از کم 87 یہ خیمہ بستیاں جھیلوں میں بدل چکی ہیں۔
ادارے کے مطابق کچھ افراد نے عوامی مقامات پر عمارتوں میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ منفی درجہ حرارت میں کئی افراد کھلے آسمان تلے ہیں۔
سخت موسمیاتی سختیوں کے باعث کم از کم ایک بچے کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
شام میں کم از کم 66 لاکھ افراد بے گھر ہیں
اس علاقے میں خیمہ بستوں کی 15 لاکھ آبادی میں 80 فیصد تعداد عورتوں اور بچوں کی ہِے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بغوات کے آغاز کے بعد گذشتہ 10 برسوں میں کم از کم ایک کروڑ بیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے جان بچا کر نکلے ہیں۔
کم از کم 66 لاکھ افراد ملک میں بے گھر ہیں جبکہ 56 لاکھ افراد بیرون ملک پناہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
حلب میں برفباری کے بعد بچے اپنے خیمہ کی چھت صاف کر رہے ہیں تاکہ پانی اندر رسنے سے روک سکیں
اتنے کم درجہ حرارت میں کچھ لوگ کھلے اسمان تلے ہیں
ترکی میں کیئر کے شیرائن ابراہیم کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم حلب اور ادلب میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم سیلاب کے باعث سڑکوں تک عدم رسائی کی وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا ہے۔
انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اس صورتحال کی وجہ سے کووڈ19 کے انفیکشن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ بدھ کو طبی حکام کے مطابق کم از کم بیس ہزار افراد میں مرض کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ 379 اس کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔
زیادہ تر کیمپ زرعی علاقوں میں قائم ہیں
سردیوں میں کیمپوں کی بحالی ممکن نہیں کیونکہ دوبارہ باشوں سے سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا امکان ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ نامناسب پناہ گاہوں اور بڑھتی ہوئی بھوک کے باعث ان بے گھر ہو جانے والے شامی افراد کے خود کو اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنے کے تمام حربے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔
حلب کے ایک کیمپ میں رہنے والی خاتون زینب نے کیئر کو بتایا کہ ’خیمے میں پانی آ گیا تھا جہاں میں اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتی تھی پانی زمین پر پھیل گیا تھا۔ ہم وہاں نہیں رہ سکتے تھے، دیکھیے ہماری کیا حالت ہو گئی ہے، ہمارے پاس نہ کھانا ہے نہ کمبل ہے اور نہ ہی دوسرا سامان ہے۔
زینب اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ ادلب کے کیمپ میں رہتی تھیں
ان کا مزید کہنا تھا کہ پانی نے سب کچھ تباہ کر دیا یا کچھ نہیں بچا، بہت مشکل وقت ہے۔‘
گذشتہ برس بے گھر ہونے والے ابو علی کا کہنا تھا ایک ہفتے سے ان کے خاندان کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے اور امدادی ادارے ان کے کیمپ تک امداد نہیں پہنچا پا رہے۔
ابو علی کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے خشک کپڑے، کمبل یا بستر تک نہیں
شام کے محکمہ شہری دفاع کے کارکنوں جنہیں وائٹ ہیلمٹ کہا جاتا ہے نے اتوار کو کو بارش کے باوجود اپنی کاروائیاں جاری رکھیں اور دو سو پچیس سے زائد کیمپوں میں 3,200 متاثرہ خاندانوں کو امداد فراہم کررہے تھے۔
شام کے شہری دفاع کے مطابق گذشتہ ہفتے ادلب میں ایک چھ سالہ بچہ خیمے کے گرد لگی اینٹوں کی کی دیوار گرنے سے ہلاک ہوگیا۔
Comments are closed.