اسلام آباد:نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورت حال کے باوجود الیکشن التوا کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔
امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے۔ امن و امان اور سرحدی صورتحال کے باعث سردست عام انتخابات کے التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کروا لیں گے۔
دورہ امریکا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تنازع کشمیر کا ایجنڈا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بہت پرانا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم تواتر کے ساتھ کشمیر کے کیس کا دفاع اور اس کی وکالت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کرتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کشمیر کو ایک بڑی جیل کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے اوروہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو قیدیوں کی طرح محصور کردیا گیا ہے، ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق ایسی کوئی خلاف ورزیاں نہیں ہیں، جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے نتیجے میں کی جا رہی ہیں۔
میڈیا کی آزادی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی کا نام بھی لینے پر کوئی پابندی نہیں، کسی کا بھی نام لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ اگر سب سے بہتر نہ بھی سہی، مگر بہت بہتر ضرور ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے، پاکستان کے حکومتی اور ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے، پاکستان میں معاشی اصلاحات کے حوالے سے کوئی ایسا ایشو نہیں ہے جس میں آپ کو اپنی صدا بلند کرنے کی اجازت نہ ہو یا اسے میڈیا پر چلانے کےمواقع دستیاب نہ ہوں۔
پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد بنیادی طور پر قانونی اور آئینی لحاظ سے الیکشن کمیشن کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے کام کو انتہائی ایمانداری سے سرانجام دینے جا رہے ہیں اور وہ اس پراسس کو پہلے ہی شروع کر چکے ہیں، جس کے کچھ آئینی تقاضے وہ پورے کررہے ہیں، جس میں کچھ حلقہ بندیوں سے متعلق ہیں اور جلد ہی الیکشن کمیشن دن کا تعین بھی کردے گا اور انتخابات کا اعلان بھی جلد ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد میں معاونت کے سلسلے میں نگراں حکومت کئی اقدامات کر چکی ہے۔ ایسا نظر نہ آنے کا ایک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تشہیر کم ہو رہی ہے لیکن ایسا قطعاً نہیں ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ہم کوئی اقدامات نہیں کررہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نگراں حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مختلف ضروریات کو پورا کرنے اور جہاں تعاون درکار ہو، وہاں ذمے داری ادا کررہے ہیں۔
صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کی تجویز سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس پر حکومت کا اعتراض نہیں بنتا۔ یہ بات پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ مینڈیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے، نگراں حکومت کا نہیں۔ نگراں حکومت نے صرف معاونت کرنی ہے۔ اس سلسلے میں اخراجات یا سکیورٹی کے حوالے سے ذمے داریاں نگراں حکومت نیک نیتی کے ساتھ پوری کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم بیک وقت ان چیلنجز اور خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابات کے حوالے سے جو کام کرنا ہے، اسے بھی ہم مکمل کروائیں گے۔
عمران خان پر الزامات اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ معاملات عدالت میں ہیں اور ہمیں ان الزامات کے نتائج کا بھی انتظار ہے۔ یہ تاثر اگر جا رہا ہے تو درست نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں جو عدالتی کارروائی ہے یہ شفاف ہو، تاکہ ان کے حامی اور دیگر جماعتوں کے لوگوں کو بھی پتا چل جائے کہ یہ کسی کو سیاست سے دور کرنے کا عمل نہیں بلکہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ اس کا اطلاق مجھ سمیت سب پر یکساں ہونا چاہیے۔
’’نگراں حکومت سے متعلق ایسا تاثر ہے کہ یہ جی ایچ کیو کا سویلین چہرہ ہے‘‘، اس سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوئی نیا تاثر نہیں ہے، یہ ہر حکومت میں آتا ہے۔ یہ عمران خان کی حکومت میں بھی تھا، جس پر سلیکٹڈ حکومت کا الزام لگایا جاتا تھا، اس کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی، ان پر بھی یہی الزام لگایا جاتا تھا، اس سے قبل بھی اسی طرح کے الزامات تھے۔ یہ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں ایسے تاثرات ابھرتے ہیں اور جب نئی حکومت آتی ہے تو پھر نئے چہروں اور نئی قیادت کے ساتھ یہ تاثر قائم رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک آئینی طریقے سے آئے ہیں۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی تجویز کے ساتھ نگراں حکومت قائم ہوئی ہے، ہم اس عمل سے گزر کر آئے ہیں اور اسی کے نتیجے میں آئے ہیں۔
صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، پشتون لیڈر ہونے کی حیثیت سے آپ کو طالبان سے بات چیت کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟، جس پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا مفاد سب سے اولین ترجیح ہے۔ پشتون نسل سے تعلق ہونا اور پشتو زبان سے استعمال سے بعض اوقات فائدہ مند ہو بھی سکتا ہے لیکن دراصل دونوں جانب اپنے اپنے قومی مفادات کے ارد گرد اپنی بات چیت رکھتے ہیں، یہ ادراک ہماری لیڈر شپ کوبھی ہے اور دوسری جانب سے بھی میرا یہی گمان ہوگا کہ وہ بھی اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ یہ تاثر ہے کہ طالبان پاکستان کی بات نہیں سن رہے، نہ کوئی ایسی بات ہے کہ پاکستان طالبان کے حوالے سے کوئی مخصوص مطالبہ رکھ رہا ہو۔ ہمیں مغربی باردر پر دہشت گردی کے حوالے سے چیلنج درپیش ہے اور جب دوحا مذاکرات ہو رہے تھے، تب بھی خطے کے ممالک، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، چین، مشرق وسطیٰ ، روس اور جو آئی ایس ایف اور جو نیٹو کی فورس جو کہ خطے سے جا رہی تھیں، ان تمام قوتوں کی ٹی ٹی اے کے ساتھ اس نقطے پر بات ہوئی تھی کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، جس کی انہوں نہ دوحا میں اس حوالے سے کمٹمنٹ بھی کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ خود بھی پائیدار اور اچھے تعلقات کے لیے ایسا چاہتے ہیں۔ اور اب ایسا کیوں نہیں ہو پا رہا، اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے غور کرتا ہے اور ہم وقتاً فوقتاً اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور دوسری جانب سے جو کردار ہم چاہتے ہیں، اس حوالے سے بھی جو متعلقہ فورمز ہیں، اس پر ہم کوشاں ہیں۔
پاکستان کے پاس دفاع کا حق موجود ہے، ہم اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے جہاں جہاں کارروائی ضروری سمجھیں گے، وہ ہم ضرور کریں گے۔ میں کسی مخصوص آپریشنل فیصلوں سے متعلق بات نہیں کررہا جو پاکستان کر سکتا ہے، مگر جب حالات کے لحاظ سے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تو ہم وہ فیصلے لیں گے اور وہ نظر آ جائیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر بالکل درست نہیں ہے کہ امریکا کسی سازش کے تحت اپنا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر گیا ہے۔ نہ ہم نے ابتدا میں یہ بات کہی ہے، نہ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم کسی مملکت خواہ وہ امریکا ہو یا کوئی اور، اس پر کوئی الزام دھر رہے ہیں۔ میں کسی طور پر ایسے تاثر کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی اسے اس زاویے سے دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ میرے خیال میں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو دیکھتی ہیں، جس کے تحت وہ کبھی کسی کے قریب ہو جاتے ہیں اور کبھی کسی سے دور بھی ہو جاتے ہیں۔
چین روس ایران تعلقات کے تناظر میں امریکا سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہماری تعلقات کے خطے کی سطح پر اپنے مخصوص تقاضے ہیں اور اسی کے تحت پاکستان کے رشتے استوار ہوں گے اور ساتھ ہی ہمارے جو مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں، جو تاریخی طور پر 7 دہائیوں سے جڑے ہوئے ہیں، ، ان کی اپنی اہمیت ہے، وہ آئندہ دہائیوں میں بھی برقرار رہے گی۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت نہیں ہو رہی۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ بڑی ریگولر تجارت ہو رہی ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے چند معاملات تھے، جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس میں ایک پہلو غیر قانونی تجارت کا آ رہا تھا، جس پر ہم فوکس کرکے دور کررہے ہیں۔ ہمارے تجارتی تعلقات افغانستان سمیت وسطی ایشیا کے ساتھ مزید بہتر ہونے جا رہے ہیں۔
Comments are closed.