بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اس تصویر میں 25,000 ’’بڑے بڑے بلیک ہولز‘‘ ہیں!

کراچی: بظاہر معمولی سی دکھائی دینے والی اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں ہر سفید نقطہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے… اتنا بڑا کہ ایسے ہر بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا سے 50 ارب گنا تک زیادہ ہوسکتی ہے۔ یعنی اس تصویر میں ہر نقطہ ایک ’’سپر میسیو بلیک ہول‘‘ ہے!

یہ تصویر یورپی ماہرینِ فلکیات کی ایک وسیع ٹیم نے کئی سال محنت کے بعد تیار کی ہے جسے بنانے کےلیے انتہائی کم تعدد (low frequency) والی ریڈیو لہروں کے علاوہ سپر کمپیوٹر کی زبردست طاقت بھی استعمال کی گئی ہے۔

اگر آپ اب بھی اس تصویر کو معمولی سمجھ رہے ہیں تو اس کامیابی کا پس منظر سمجھنا آپ کےلیے ضروری ہوگا۔

ریڈیو کھڑکی اور کم تعدد والی لہریں

واقعہ یہ ہے کہ زمین کے گرد لپٹا ہوا ’’کرہ رواں‘‘ (آئنو اسفیئر) کسی فلٹر کا کام کرتے ہوئے صرف 5 میگا ہرٹز سے 30 گیگا ہرٹز (30,000 میگا ہرٹز) فریکوینسی کی ریڈیو لہروں ہی کو زمینی سطح تک پہنچنے دیتا ہے۔ سائنس کی زبان میں اسے ’’ریڈیو کھڑکی‘‘ (ریڈیو ونڈو) کہا جاتا ہے۔

تاہم جب یہ لہریں کرہ ہوائی (ایٹموسفیئر) سے گزرتی ہیں تو اِن میں انتشار پیدا ہوتا ہے جس کا انحصار اُس وقت اور مقام پر کرہ ہوائی کی کیفیت پر ہوتا ہے۔

کم فریکوئنسی والی لہروں کےلیے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے جس کے باعث ان کے ذریعے اب تک آسمان کی ریڈیو تصاویر حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔

اگرچہ بڑے بڑے ڈش انٹینا جیسی زمینی ریڈیو دوربینیں پچھلے پچاس سال سے اُن آسمانی مناظر کی عکاسی کر رہی ہیں جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے، لیکن اس کےلیے وہ زیادہ فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں سے ہی استفادہ کرتی ہیں۔

 

یورپ کا ’’لوفار‘‘ منصوبہ

100 میگا ہرٹز اور اس سے کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کے ذریعے آسمان کی تصویر کشی کےلیے فی الحال صرف ایک ہی بڑا منصوبہ ’’لو فریکوئنسی ایرے‘‘ (LOFAR) ہے جس کے 20 ہزار سے زائد ’’ڈائی پول ریڈیو انٹینا‘‘ پورے یورپ میں 52 مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ویسے متبادل طور پر اس منصوبے کو ’’انٹرنیشنل لوفار ٹیلی اسکوپ‘‘ (ILT) بھی کہا جاتا ہے۔

یہ منصوبہ 2010 میں شروع ہوا اور فروری 2021 میں (یعنی اسی سال) مکمل ہو کر رُو بہ عمل ہوا ہے۔

مجموعی طور پر یہ تمام ڈائی پول ریڈیو انٹینا آپس میں مل کر ’’لوفار‘‘ کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کی مدد سے آسمان کی انتہائی وسیع اور تفصیلی تصویر بنا سکے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں کہ جتنی آسانی سے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔

 

بلیک ہول اور ’’آخری چیخ‘‘

سادہ الفاظ میں بات کریں تو کسی بھی بلیک ہول کی کششِ ثقل (گریویٹی) اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ مادّہ تو کیا، روشنی بھی وہاں سے فرار نہیں ہوسکتی۔

خوش قسمتی سے بلیک ہول کی یہ ’’ناقابلِ فرار‘‘ کشش اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے یعنی ’’واقعاتی افق‘‘ (ایونٹ ہورائزن) تک محدود ہوتی ہے۔

کوئی بھی چیز (مثلاً گیس اور گرد وغیرہ) جیسے جیسے بلیک ہول کے قریب پہنچتی ہے، ویسے ویسے اس پر بلیک ہول کی کششِ ثقل کا اثر بھی بڑھتا جاتا ہے اور وہ مزید تیزی سے، چکر لگاتی ہوئی، بلیک ہول سے اور بھی نزدیک ہونے لگتی ہے… یہاں تک کہ وہ واقعاتی اُفق پر پہنچ جاتی ہے۔

تاہم یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس چیز کی رفتار اور توانائی، دونوں ہی بہت زیادہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ واقعاتی اُفق کو عبور کرتے ہی وہ چیز خود تو بلیک ہول کے اندر غائب ہوجاتی ہے لیکن ٹھیک اسی مرحلے پر وہ زبردست توانائی بھی خارج کرتی ہے جس کا کچھ حصہ واقعاتی اُفق سے ’’ذرا باہر‘‘ ہونے کی وجہ سے بیرونی خلاء میں فرار ہوجاتا ہے۔

بلیک ہول سے فرار ہونے والی یہ توانائی ایکسریز سے لے کر ریڈیو لہروں تک، کئی طرح کی برقی مقناطیسی لہروں کی شکل میں ہوتی ہے جس کا مخصوص انداز اس مقام پر بلیک ہول کی موجودگی کا پتا دیتا ہے۔

سائنس داں اسے بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی ’’آخری چیخ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اب تک جتنے بھی بلیک ہولز دریافت کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب اسی بنیاد پر دریافت ہوئے ہیں۔

’’لوفار‘‘ منصوبے کے تحت، بلیک ہول سے فرار ہونے والی ایسی ہی کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ لیکن…

خصوصی الگورتھم اور سپر کمپیوٹر

… لیکن اِن لہروں میں انتشار اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں آسمان کی ’’ریڈیو تصویر‘‘ بنانے میں استعمال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ حل کرنے کےلیے کمپیوٹر پروگرامرز/ سافٹ ویئر بنانے والوں سے مدد لی گئی جنہوں نے ان منتشر ریڈیو لہروں کو واضح اور صاف ستھرے عکس میں تبدیل کرنے کےلیے خاص طرح کے الگورتھم اور سافٹ ویئر تیار کیے۔

’’لوفار‘‘ سے مسلسل 256 گھنٹے (10 دن اور 16 گھنٹے) تک آسمان کا مشاہدہ کرکے کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہریں جمع کی گئیں۔ یہ ڈیٹا اتنا زیادہ تھا کہ اسے نہ تو کسی عام ہارڈ ڈسک پر محفوظ کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی کسی عام کمپیوٹر پر درست کرکے صاف ستھرے عکس میں تبدیل کرنا ممکن تھا۔

لہٰذا، اس مقصد کےلیے زیادہ گنجائش والی ہارڈ ڈسکس کے علاوہ، اس تمام ڈیٹا کی پروسیسنگ کےلیے سپر کمپیوٹر استعمال کیا گیا۔

اس طرح، آخرکار، انتہائی کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کی مدد سے شمالی آسمان کے صرف 4 فیصد حصے کی ایک بھرپور، جامع اور صاف ستھری تصویر حاصل کی گئی جس میں ایک ساتھ 25 ہزار کے لگ بھگ عظیم و جسیم بلیک ہول یعنی ’’سپر میسیو بلیک ہولز‘‘ موجود ہیں۔

ابھی تو ’’پاؤڑی‘‘ شروع ہوئی ہے!

یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ 2019 میں ’’لائیگو‘‘ سے ’’بلیک ہول کے سائے کی اوّلین تصویر‘‘ کی طرح یہ تصویر بھی بہت غیرمعمولی ہے کیونکہ یہ صرف ایک تصویر نہیں بلکہ انسانی ذہانت، مہارت اور برسوں کی محنت کا نچوڑ ہے جس کی بدولت ’’ریڈیو فلکیات‘‘ اپنی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: سائنس دانوں نے بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے… کیا واقعی؟

اس کے باوجود، یہ ’’لوفار‘‘ کی صرف پہلی کامیابی ہے کیونکہ یہی منصوبہ اگر ایک طرف کرہ رواں (آئنو اسفیئر) کو بہتر طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا تو دوسری جانب اس سے مستقبل میں فلکیات کے میدان میں نئی (اور شاید غیر متوقع) دریافتیں بھی متوقع ہیں۔

50 میگا ہرٹز سے کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کی مدد سے ہم کہکشاؤں، کہکشانی مرکزوں، چھوٹے بڑے بلیک ہولز، کہکشانی جھرمٹوں اور دوسرے آسمانی اجسام کو ایک بالکل نئے انداز سے دیکھ سکیں گے۔

بہرحال، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آنے والے برسوں میں ’’لوفار‘‘ اور اس جیسے دوسرے زمینی و آسمانی تحقیقی منصوبے ہمارے لیے اور کون کونسی حیرت سامانیاں لاتے ہیں۔

تب تک سائنس دانوں کو اُن کا کام کرنے دیتے ہیں اور ہم ’’پاؤڑی‘‘ میں لگے رہتے ہیں۔

نوٹ: اس تحقیق اور مذکورہ تصویر کے بارے میں تحقیقی مقالہ ’’ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوا ہے۔

 

You might also like

Comments are closed.