فن لینڈ: انسان کی سننے کی صلاحیت بڑی محدود ہے یعنی ہم 20 سے 20 ہزار ہرٹز کے درمیان کے صوتی امواج سے پیدا ہونے والی آوازیں ہی سن سکتے ہیں۔ لیکن اب فن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ٹیکنالوجی وضع کی ہے جس کی بدولت ہم انسان بھی الٹراساؤنڈ سن سکیں گے اور ان میں سرِفہرست چمگادڑوں کی آوازیں شامل ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج سائنٹفک رپورٹس کی 2 جون 2021 کی اشاعت میں شائع کئے گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ چمگادڑوں کی نظر بہت کمزور ہوتی ہیں اور وہ الٹراساؤنڈ خارج کرکے، اجسام سے ٹکرا کر پلٹنے یعنی بازگشت (ایکو) کی مدد سے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ لیکن ہم انسان ان آوازوں کو نہیں سن سکتے تھے لیکن سائنس اور جدید ٹیکنالوجی نے یہ ممکن کردکھایا ہے۔
آلٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ویلی پوکی کہتے ہیں کہ ہماری نئی تکنیک سےہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کس طرف سے ان جانوروں کی صدا آرہی ہے یعنی ہم الٹراساؤنڈ خارج ہونے کے مقام کا درست اندازہ لگاسکتےہیں۔ اس طرح انسان ’فوق سماعت‘ یعنی سپرہیئرنگ کا حامل بن سکتا ہے۔
اس سے قبل چمگادڑوں کی صدا سننے یا سمت معلوم کرنے کے کئی آلات بنائے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں کامیابی نہ مل سکی۔ اس ضن میں ماہرین نے لالی پاپ نما گول شے پر حساس مائیکروفون کی ایک قطار بنائی۔ اب جو الٹراساؤنڈ آواز موصول ہوئی اسے سماعت کے قابل فری کوئنسیوں میں فوری طور پر تبدیل کردیا گیا۔ اور اس آواز کو عین اسی لمحے ہیڈفون کی طرف بھیجا گیا۔ فی الحال پچ شفٹنگ یا آواز کی فری کوئنسی بدلنے کا کام کمپیوٹر نے کیا ہے لیکن اگلے مرتبہ شاید یہ پورا نظام ہیڈفون میں ہی سمودیا جائے گا۔
اس کے بعد مائیکروفون نے تمام باتوں کا جائزہ لیا اور سب سے اہم سمت کی نشاندہی کی جہاں سے آواز آرہی تھی۔ اس طرح نہ صرف اڑتے ممالئے کی الٹراساؤنڈ آوازکو سنا گیا بلکہ اس کی سمت بھی معلوم ہوگئی۔ لیکن اس ایجاد کے بہت سے فوائد ہیں۔ اس کی بدولت پائپوں کے رساؤ اور بجلی کے نظام میں گڑبڑ کا پتا لگایا جاسکتا ہے جو عموماً الٹراساؤنڈ کی صورت میں خارج ہوتے ہیں۔
Comments are closed.