سپریم کورٹ نے مرتضی وہاب کی غیر مشروط معافی قبول کر تے ہوئے انہیں ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے ہٹانے کا حکم واپس لے لیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارکس بحال کرنے کے لیے آپ کو ہمارے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں، سیوریج ٹریٹمنٹ، انڈسٹری اور قبرستان بن چکا، یہ ریاست کے اثاثے حکمرانوں کے پاس امانت ہوتی ہے، کس نے سوچا کہ رفاعی پلاٹس پر تعمیرات ہو سکتی ہیں، تاقیامت بھی رفاعی پلاٹ رفاعی ہی رہیں گے لہذا وقت آگیا کے ایم سی کی ساری سوسائٹیز ختم کردی جائیں، جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ یہ ریاست کے اثاثے ہوتے ہیں مرتضی وہاب صاحب، یہ تمام آپ کے پاس امانتیں ہیں، ریاست یہ سب زمین واپس لے گی، ہمارے ذریعے نہیں تو کسی اور کے ذریعے، ایک چھوٹے آفس میں بیٹھا افسر وائس رائے بن جاتا ہے، یہی ہمارا المیہ ہے۔ پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد اور قاضی محمد امین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق مختلف کیسز پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، کمشنر کراچی اقبال میمن اور سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب بھی عدالت میں پیش ہوئے جنہیں سپریم کورٹ نے طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ گٹر باغیچہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے یہ ریاست کی زمینیں ہیں آپ کی ذاتی ملکیت نہیں، ساری زمینیں واپس کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں لیں گے تو کوئی اور آکر لے گا، آپ زمینیں واپس کریں گے۔ مرتضی وہاب نے بینچ سے تلخ کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیا چلے جائیں، حکومت چھوڑ دیں؟ اوپن کورٹ میں حکومت کے خلاف بڑی بڑی آبزرویشنز پاس کردی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے مرتضی وہاب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر، چپ کریں، کیا بات کر رہے ہیں، سیاست نہیں کریں یہاں، جائیں یہاں سے نکل جائیں، ابھی آپ کو فارغ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایڈمنسٹریٹر ہیں یا سیاسی رہنما؟ ایڈمنسٹریٹر کو شہریوں کی خدمت کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ غیر جانبداری سے کام کرے، ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سیاست کے لیے نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ایڈمنسٹریٹر اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے، ان کا رویہ سیاسی رہنماں کا ہے شہریوں کی سروس کا نہیں۔ سپریم کورٹ نے سخت الفاظ استعمال کرنے پر مرتضی وہاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو مرتضی وہاب کو فوری عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا۔ عدالت نے وزیر اعلی سندھ کو غیر جانبدار اور اہل شخص کو ایڈمنسٹریٹر لگانے کا حکم بھی دیا۔ چیف جسٹس نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جائیں باغ ابن قاسم، ہل پارک کو اپنے نام پر کرا لیں، فریئر پارک کو بھی لے لیں، جتنے پارکس ہیں کراچی میں سب ختم کردیں اور رہے سہے پارک بھی اپنی افسران کو بانٹ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ کہ جن کا کام پارک بسانا ہے وہی اپنے گھر لے کر چلے جائیں، کیا کراچی آپ کی ذاتی ملکیت ہے؟ جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیے کہ یہ تمام آپ کے پاس امانتیں ہیں، ریاست یہ سب زمین واپس لے گی، ہمارے ذریعے نہیں تو کسی اور کے ذریعے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کس نے سوچا کہ رفاعی پلاٹس پر تعمیرات ہو سکتی ہیں، تاقیامت بھی رفاعی پلاٹ رفاعی ہی رہیں گے، وقت آگیا ہے کہ کے ایم سی کی ساری سوسائٹیز ختم کر دی جائیں، کے ایم سی والوں نے سوچا کہ سب بیچو مرضی سے، رفاعی پلاٹس بیچ کر خوب مال بنایا گیا۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد کا کہنا تھا کہ ایک چھوٹے دفتر میں بیٹھا افسر وائس رائے بن جاتا ہے، یہی ہمارا المیہ ہے۔ چیف جسٹس نے مرتضی وہاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تمام پارکس بحال کرنا ہوں گے۔ کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ 168 ایکٹر اراضی میں سے 50 ایکٹر پر قبضہ ہے۔ مرتضی وہاب نے کہا کہ اس شہر کی مشکلات کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارکس بحال کرنے کے لیے آپ کو ہمارے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں، سیوریج ٹریٹمنٹ، انڈسٹری اور قبرستان بن چکا، یہ ریاست کے اثاثے حکمرانوں کے پاس امانت ہوتی ہے۔ مرتضی وہاب نے عدالت سے اپنے رویے پر غیر مشروط معافی مانگی جسے بینچ نے قبول کرنے سے انکار کردیا تاہم ان کی دوسری بار معافی قبول کرلی گئی اور سپریم کورٹ نے ان سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء
Comments are closed.