ورجینیا: ہمارے سمندروں کو کئی عارضے لاحق ہوچکے ہیں اور اب ایک کروڑ 80 لاکھ مربع کلومیٹر سمندری علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے عالمی منصوبہ شروع کیا گیا ہے جسے ’بلیو نیچر الائنس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس کی پشت پر کئی ادارے اور فلاحی تنظیمیں ہیں جو مل کر پانچ برس تک اس منصوبے پر کام کریں گی۔ ابتدا میں اہم نوعیت کے تین بحری مقامات یعنی فجی کے قریب واقع لاؤ سی اسکیپ، انٹارکٹیکا میں سدرن اوشن اور جنوبی بحرِ اٹلانٹک میں ٹرسٹان ڈی کنہا کے تحفظ اور بحالی پر کام کیا جائے گا۔
بلیو نیچر الائنس میں شامل اوشن یونائٹ نامی تنظیم کی سربراہ کیرن سیک کہتی ہیں کہ ہمارے سمندر بحران کے شکار ہیں اور ان کی نوعیت بہت پیچیدہ ہے۔ عالمی منصوبے کے تحت بحری نوعیت کے اہم علاقوں کے تحفظ اور فطری مقامات کو بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔ اس دوران مقامی آبادیوں کو منصوبے میں شامل کیا جائے گا۔
اسی طرح ایک اور منڈیرو فاؤنڈیشن کے سی ای او ٹونی وربی نے کہا ہے کہ ’ اس اشتراک سے ہم سب مل کر ایک بڑے مشن کے لیے درست سمت کی جانب بڑھیں گے۔‘
سائنسداں متفق ہیں کہ اگر ہمارے سمندر تندرست اور صاف رہتے ہیں تو انسان کی بقا بھی انہی سے وابستہ ہے۔ آلودگی اور پلاسٹک کا کچرا تیزی سے سمندر میں پھیل رہا ہے اور اب جانوروں کی بڑی تعداد کو ہلاک کررہا ہے۔ ہم انسان ہر سال640,000 ٹن کچرا اور پلاسٹک سمندر میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں ماہی گیری کے پرانے جال بھی ہیں جن میں وھیل سے لے کر کچھوے تک پھنس کر مر رہے ہیں۔
سمندر ہمیں غذا اور دنیا کی نصف آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ پھرعالمی حدت اور کلائمٹ چینج سے سمندروں کی تپش بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب کورل ریف اور مرجانی چٹانیں تباہ ہورہی ہیں جو اکثر سمندری حیات کی نرسریاں اور گھر ہوتی ہیں۔ پھر پوری دنیا میں بحری سطح بلند ہورہی ہے اور سمندر کی لہریں ساحلوں کو کاٹ رہی ہیں۔
معاہدے کے تحت فوری طور پر سمندری اور ساحلی علاقوں کا اہم ترین 30 فیصد حصہ بچایا جائے گا اور اس میں اقوامِ متحدہ کی تائید ومدد بھی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ بحری تحفظ والے علاقوں (مرین پروٹیکٹڈ ایریاز) یام ایم پی اے میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور مناسب وسائل خرچ کیے جائیں گے۔
اگرچہ 2020ء تک دس فیصد عالمی سمندر کو محفوظ کرنا تھا لیکن یہ ہدف 7.65 ہی حاصل ہوسکا ۔ تاہم 1985ء سے تحفظ شدہ بحری علاقوں کی تعداد 430 سے بڑھ کر اب 18500 ہوچکی ہے جو ایک اچھا قدم ہے۔
لیکن اب بھی بہت بڑے ایم پی ایز علاقوں میں ماہی گیری، کان کنی اور ڈرلنگ وغیرہ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے اس مشقت کے باوجود سمندری علاقوں کو تحفظ شدہ علاقے قرار دینے کی اسکیم پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ ان علاقوں میں مرجانی چٹانیں تیزابیت اور تباہی کی شکار ہورہی ہیں۔
دوسری جانب اب بھی یہ تاثر عام ہے کہ سمندری مسکن اور علاقوں کو بچانے سے نازک بحری حیات کا بہت فائدہ ہوسکتا ہے اور وہاں نایاب جانوروں کی نسل خیزی کا عمل جاری رکھا جاسکتا ہے تاہم بلیو نیچر الائنس کے اس اقدام کو دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ماہرینِ ماحولیات نے مجموعی طور پرسراہا ہے۔
Comments are closed.