نیویارک: سائنس دانوں نے ایک بہت عام پیڑ (شرب) سے کینسر کے خلاف مؤثر مرکب (کمپاؤنڈ) حاصل کیا جو اس سے قبل دواسازی کے سانچے میں ڈھل نہیں پارہا تھا۔
پوردوا یونیورسٹی اور اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بہتات میں اگنے والے جیٹروفا کرکاس سے ایک نیا مرکب نکالا ہے جو ایسے کینسر پروٹین کو لگام دیتا ہے جو اس سے قبل کسی بھی دوا سے قابو نہیں آرہا تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ کینسر کے مرض میں خلیات مرتے نہیں بلکہ گچھے اور رسولی کی صورت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بدن کے دوسرے حصے میں پھیلتے جاتے ہیں۔ اپنی تعداد بڑھانے کے لیے کینسر کے خلیات دیگر صحت مند خلیات کے ڈی این اے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
بعض اقسام، مثلاً دماغ، چھاتی، آنت، پھیپھڑے اور جگر کے کینسر میں بی آر اے ٹی ون یا BRAT1 نامی پروٹین ہی ڈی این اے کے تباہی اور مرمت کے تمام معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس پروٹین کا علاج کرکے ان اقسام کے کینسر کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی کہ اب تک اس پروٹین پر اثرکرنے والی کوئی دوا نہیں بنائی جاسکی ہے۔
اس دریافت کے اہم سائنسداں پروفیسر منگجائی ڈائی نے کہا کہ ’جہاں تک کینسر خلیات کو مارنے اور انہیں دوسرے مقام تک روکنے کے لیے ہمارے پاس بہت سے مرکبات ہیں لیکن بی آر اے ٹی ون کو روکنے والا کوئی ادویاتی مرکب ہمارے پاس نہ تھا،‘
جیٹروفا کرکاس امریکا بھر میں عام پایا جاتا ہے جو اس سے قبل بایوفیول کی تیاری میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔ اس پیڑ سے ’کرکیوسونس‘ نامی کئی مرکبات حاصل ہوئے ہیں۔ اپنی ساخت کی بنا پر یہ دیگر مرکبات سے بہت مختلف ہیں اور ان میں کئی طرح کی حیاتیاتی سرگرمیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ توقع ہے کینسر کے خلاف لڑائی میں نئے ہتھیار اسی پیڑ سے حاصل ہوسکیں گے۔
اگلے مرحلے میں سائنسدانوں نے کرکیوسون اے، بی، سی اور ڈی کو تجربہ گاہ میں بریسٹ کینسر کے خلیات پرآزمایا۔ اس میں کرکیوسون ڈی بہت مؤثر دیکھا گیا جس نے سرطانی رسولی کو چھوٹا کردیا۔ جب اسے ایک دوا ایٹوپوسائڈ کے ساتھ ملاکر استعمال کیا گیا تو مزید اچھا نتیجہ نکلا۔ واضح رہے کہ یہ دوا بریسٹ کینسر میں عام استعمال ہوتی ہے اور ایف ڈی اے سے منظورشدہ بھی ہے۔
لیکن فی الحال ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ جیٹروفا کی جڑوں سے کرکیوسون ڈی کو نکالنا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت ساری جڑوں سے اس کی معمولی مقدار ہی نکل پاتی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے تجربہ گاہ میں تالیف (سنتھے سائز) کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
سائنسداں پرامید ہیں کہ اس طرح مرکب کی قدرے خاص حالت مل سکے گی لیکن ان حوصلہ افزا نتائج کے بعد ماہرین کو ابھی مزید کوہِ تحقیق عبور کرنا ہوں گے۔
Comments are closed.