اوکی ناوا: اگر آپ سے زہر پیدا کرنے والے جان دار کا پوچھا جائے تو یقینا آپ سانپ، بچھو یا کسی دوسرے زہریلے جانور کا نام لیں گے لیکن ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ انسانوں میں بھی زہر پیدا کرنے کی ’ ٹول کٹ ‘ موجود ہوتی ہے۔
جاپان کے ’ اوکی ناوا انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی‘ میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق انسانوں میں موجود لچک دار جینز کا یہ گچھا خاص طور پر لعاب دہن کے غدود کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔
اس مطالعے کے شریک مصنف اگنیش بروآ کا کہنا ہے کہ منہ کا زہرعالم حیوانات میں بہت عام ہے لیکن موجودہ حیوانات رئیسہ (دودھ پلانے والے حیوانات میں سب سے اونچے درجہ کے حیوانوں میں سے کوئی ایک، جن میں آدمی، بندر، لنگور، سب شامل ہیں) میں صرف مکڑیوں، سانپوں اور لورس (درختوں پر بسیرا کرنے اور رات کو باہر نکلنے ایشیا اور افریقہ کا ممالیہ) کو زہریلا مانا جاتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل مشہور ماہرحیاتیات الیگزینڈر مائیک ہیو کا کہنا ہے کہ ’ماہرین حیاتیات اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ منہ میں لعاب دہن کے غدود درحقیقت زہر کے ترمیم شدہ غدود ہیں لیکن نئی تحقیق نے اس تبدیلی کے تناظر میں ہونے والی سالماتی میکانزم سے پردہ اٹھایا ہے۔‘
الگزینڈر کے مطابق ہم نے اس مطالعے میں منظم ’ ہاؤس کیپنگ‘ جینز پر توجہ مرکوز کی اور یہی جینز زہر سے متعلق ہیں لیکن یہ خود اپنے طور پر زہر پیدا کرنے کے ذمے دار نہیں ہیں۔
اس تحقیق کے لیے ریسرچرز نے وائپر کی نسل کے تائیوان habu سانپ سے آغاز کیا۔ الیگزینڈر کی ٹیم کو habu کے زہر میں ایسے جینز کا جھرمٹ ملا جو کہ تمام فقاریہ ( انڈے دینے والے جانور) جانوروں کے ٹشوز( بافتوں) میں عام تھا۔ ان میں سے بہت سے جینز تہہ در تہہ پروٹین میں لپٹے ہوئے تھے اور زہریلے جانور بڑی مقدار میں پروٹین سے بنے ہوئے زہر کو ہی تیار کرتے ہیں۔
اسی نوعیت کے منظم ہاؤس کیپنگ جینز انسانوں کے لعاب دہن کے غدودوں میں بھی وافر مقدار میں پائے گئے جو کہ لعاب دہن میں پائے جانے جانے والی ایک اہم پروٹین Kallikreins کو بڑی مقدار میں پیدا کرتے ہیں اور یہی پروٹین بہت سے زہر میں بھی پائی جاتی ہے۔
Comments are closed.