اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل سے متعلق پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے عدالتی اصلاحات بل سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے فل کورٹ بنانے کے لیے عدالت سے درخواست کردی۔ دوران سماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی عدالت میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی گئی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے۔سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے، رولز میں ترمیم کا نہیں۔قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہے ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992ء تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا، اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیاآپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے۔ عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے۔ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے۔عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔
فل کورٹ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ ن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اٹارنی جنرل کو پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالتی اصلاحات بل کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
Comments are closed.